کینیڈا کے سیفٹی ریگولیٹرز نے ٹائٹن آبدوز کی تباہی کی تحقیقات شروع کردیں

24 جون 2023
ٹائٹن کے ٹکڑے ٹائٹینک کے ملبے سے تقریباً 488 میٹر کے فاصلے پر سمندری تہہ میں تھے—فائل فوٹو: رائٹرز
ٹائٹن کے ٹکڑے ٹائٹینک کے ملبے سے تقریباً 488 میٹر کے فاصلے پر سمندری تہہ میں تھے—فائل فوٹو: رائٹرز

کینیڈا کے حفاظتی حکام نے زیر سمندر سیاحوں کی آبدوز کے پھٹنے کی تحقیقات کا آغاز کیا جس میں ٹائی ٹینک کا صدیوں پرانا ملبہ دیکھنے جانے والے دو پاکستانیوں سمیت تمام پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے، جس سے اس طرح کی مہمات کی غیر منظم نوعیت کے بارے میں سوالات اٹھتے ہیں۔

خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق آبدوز ٹائٹن کا ملبہ جمعرات کو شمالی بحر اوقیانوس کی گہرائی میں ایک کینیڈین تلاشی جہاز سے اتاری گئی روبوٹک ڈائیونگ گاڑی کے ذریعے ملا تھا، جس سے پانچ روزہ بین الاقوامی امدادی کوششوں کا خاتمہ ہوا۔

امریکی کوسٹ گارڈ ریئر ایڈمرل جان ماگر نے کہا کہ آبدوز ٹائٹن کے ٹکڑے ٹائٹینک کے ملبے سے تقریباً 488 میٹر کے فاصلے پر سمندری تہہ میں تھے جو سطح سے تقریباً چار کلومیٹر نیچے ہے۔

انہوں نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ملبہ آبدوز کے پھٹنے’ کا تھا، یعنی 22 فٹ لمبی آبدوز گری اور اس گہرائی میں انتہائی ہائیڈرو اسٹیٹک دباؤ میں کچل گئی۔

مرنے والوں میں آبدوز کی مالک امریکی کمپنی اوشن گیٹ کے بانی اور چیف ایگزیکٹو آفیسر اسٹاکٹن رش بھی شامل تھے، جس نے آبدوز چلائی اور ٹائٹینک کا سفر کرنے کے لیے فی کس ڈھائی لاکھ ڈالر کرایا لیا، وہ آبدوز کے پائلٹ تھے۔

ان کے علاوہ آبدوز میں برطانوی ایکسپلورر ہمیش ہارڈنگ، فرانسیسی آبدوز کے ماہر پال ہنری نارجیولٹ، پاکستانی نژاد برطانوی ٹائیکون شہزادہ داؤد اور ان کا بیٹا سلیمان سوار تھے۔

ایک بیان میں کینیڈا کے ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ (ٹی ایس بی) نے کہا کہ وہ ٹائٹن کے آپریشن کے ’حالات کے حوالے سے حفاظتی تحقیقات‘ شروع کر رہا ہے کیونکہ سطح پر اس کا معاون جہاز، پولر پرنس، کینیڈا کے جھنڈے والا جہاز تھا۔

ایجنسی نے بتایا کہ ٹی ایس بی کی ایک ٹیم سینٹ جانز، نیو فاؤنڈ لینڈ، جائے حادثہ سے تقریباً 400 میل شمال میں، معلومات اکٹھی کرنے اور انٹرویو لینے کے لیے روانہ کی گئی ہے۔

گلرمو سونین، جنہوں نے 2009 میں رش کے ساتھ اوشن گیٹ کی مشترکہ بنیاد رکھی، نے کہا کہ اسٹاکٹن رش سمندر کی گہرائیوں کو تلاش کرنے کے خطرات سے ’بڑی حد تک آگاہ‘ تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسٹاکٹن رش ان سب سے ذہین رسک مینیجرز میں سے ایک تھےجن سے میں کبھی ملا ہوں،وہ بہت خطرے سے بچنے والا تھا۔

خطرات کے بارے میں سوالات

تاہم آبدوز آپریٹرز اور ماہرین کی قریبی برادری میں دیگر نے نشاندہی کی کہ اسٹاکٹن رش اور ان کی کمپنی نے صنعت کے تیسرے فریق جیسے امریکن بیورو آف شپنگ سے ٹائٹن کے ناول ڈیزائن کی سرٹیفیکیشن نہ لینے کا انتخاب کیا۔

کچھ افراد نے اسٹاکٹن رش کے کاربن فائبر کے انتخاب پر سوال اٹھائے ہیں جس سے آبدوز کا انتہائی اہم پریشر ہل بنایا گیا تھا۔

سمندر کی سیاحت کرنے والی ایک اور کمپنی اوشن ایکس کے شریک بانی رے ڈالیو نے ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’اوشن گیٹ نے ایسے مواد کے ساتھ اپنی تجرباتی گاڑی بنائی تھی جس سے دوسرے گریز کرتے ہیں اور حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے بنائے گئے سرٹیفیکیشن کے عمل کو بھی نظرانداز کرنے کا فیصلہ اور آبدوز کمیونٹی کے اندر بہت سے ماہرین کی وارننگ کو نظر انداز کرنے کا انتخاب کیا‘۔

اسی طرح برطانوی ٹائٹینک ایکسپلورر ڈک بارٹن نے بھی ٹائٹن کے ڈیزائن اور دیکھ بھال کے بارے میں اٹھائے گئے مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ’یہاں بہت سے سرخ جھنڈے اڑ رہے تھے۔‘

ٹائٹن کے ایک مسافر، لاس ویگاس میں مقیم سرمایہ کار جے بلوم نے رائٹرز کو بتایا کہ انہوں نے حفاظتی خدشات کی وجہ سے اپنے بیٹے کے ساتھ بدقسمت ٹائٹن سیر میں شامل ہونے کے آخری لمحات میں انکار کر دیا تھا۔

جے بلوم ایک لائسنس یافتہ ہیلی کاپٹر پائلٹ ہیں جنہوں نے کہا کہ وہ خاص طور پر اسٹاکٹن رش کے ٹائٹن پر کنزیومر گریڈ کے پرزوں کے استعمال سے پریشان تھے، جس میں جہاز کو کنٹرول کرنے کے لیے ویڈیو گیم جوائس اسٹک بھی شامل ہے اور اس حقیقت سے ’خوف زدہ‘ تھا کہ آبدوز کو باہر سے بولٹس کے ذریعے بند کیا جائے گا جس کے باعث کسی ہنگامی حالت میں مسافر خود باہر نہیں نکل سکتے۔

یہ تباہی 60 سال سے زیادہ گہرے سمندر کی سویلین تلاش میں پہلی جانی جانے والی ہلاکتوں کی نشاندہی کرتی ہے لیکن صنعت کے ماہرین کے مطابق اوشن گیٹ اپنے راستے پر جانے کے لیے آزاد تھی کیونکہ بین الاقوامی پانی حکومتی ضابطوں سے باہر ہے۔

تباہی کی آوازیں

یو ایس کوسٹ گارڈ کے عہدیدار نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ٹائٹن جب تباہ ہوئی لیکن ملبے کی پوزیشن نسبتاً ٹائٹینک کے ملبے کے قریب ہے اور ٹائٹن کے ساتھ رابطہ ختم ہونے سے پہلے گزرنے والا وقت بتاتا ہے کہ تباہی اتوار کو اس کے زیر سمندر اترنے کے بعد رونما ہوچکی تھی۔

امریکی بحریہ آبدوز کی سرگرمیوں کے لیے بحر اوقیانوس کے اس حصے کی نگرانی کرتی ہے اور اس نے کہا کہ صوتی اعداد و شمار کے تجزیے میں ٹائٹن کے ساتھ رابطہ منقطع ہونے پر آبدوز کے مقام کے قریب ’ایک دھماکا یا دھماکے سے مطابقت رکھنے والی بے ضابطگی‘ کا پتا چلا تھا۔

بحریہ کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی اور کہا کہ صوتی ڈیٹا کو فوری طور پر امریکی کوسٹ گارڈ کمانڈ کے ساتھ شیئر کیا گیا لیکن فیصلہ کیا گیا کہ صوتی ڈیٹا قطعی نہیں ہے اور تلاش اور بچاؤ کا مشن جاری رہنا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں