بجلی کی طلب ریکارڈ 30 ہزار میگاواٹ تک پہنچ گئی، شارٹ فال 6 ہزار میگاواٹ سے متجاوز

اپ ڈیٹ 25 جون 2023
رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں میں 3 سے 6 گھنٹے جبکہ ملک کے دیہی علاقوں میں 12 گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے— فائل فوٹو: ڈان
رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں میں 3 سے 6 گھنٹے جبکہ ملک کے دیہی علاقوں میں 12 گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے— فائل فوٹو: ڈان

پاکستان بھر میں لوگ انتہائی گرم موسم اور بجلی کی طویل بندش کے دہرے عذاب سے دوچار ہیں، بجلی کی کئی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) نے ہفتے کے روز شارٹ فال 6 ہزار میگاواٹ سے تجاوز ہونے جانے کے بعد لوڈشیڈنگ کا سہارا لیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں میں 3 سے 6 گھنٹے جبکہ ملک کے دیہی علاقوں میں 12 گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔

طے شدہ بندش کے علاوہ اوور لوڈڈ ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن سسٹم کی وجہ سے براؤن آؤٹ (ٹرپنگ، اتار چڑھاؤ، کم وولٹیج وغیرہ) نے بھی لوڈ مینجمنٹ پر مجبور کیا۔

اسی طرح مینٹیننس کے بہانے بھی شٹ ڈاؤن جاری رہا ایسے میں کہ جب لوگوں کو گرم اور مرطوب موسم کا سامنا تھا اس سے ان کی زندگی اجیرن ہوگئی، شدید گرمی کے دوران ایئرکنڈیشنرز پر انحصار بڑھنے کے ساتھ ہی بجلی کی طلب 30 ہزار میگاواٹ تک پہنچ گئی جو کہ ملک کی تاریخ میں اب تک کی سب سے زیادہ طلب ہے۔

ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ جمعہ کو سب سے زیادہ طلب 30 ہزار میگاواٹ کو چھو گئی، زیادہ نقصان والے بجلی کے فیڈرز (بجلی چوری والے علاقوں) کی سروس کے دائرہ اختیار میں آنے والے علاقوں میں ہمارا شارٹ فال زیادہ سے زیادہ ڈھائی ہزار میگاواٹ تک پہنچ جاتا ہے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق ملک کو گزشتہ ایک ہفتے بالخصوص جمعرات کے بعد سے جس مجموعی شارٹ فال کا سامنا ہے، وہ 5 ہزار میگاواٹ اور 6 ہزار میگاواٹ کے درمیان ہے، تاہم ہفتہ کو شارٹ فال 6 ہزار 300 میگاواٹ تک پہنچ گیا۔

درحقیقت ایک پالیسی معاملے کے طور پر زیادہ نقصان والے فیڈرز (کیٹیگری 1 سے 6) پر جو لوڈشیڈنگ دیکھی جا رہی ہے اسے لوڈشیڈنگ نہیں سمجھا جاتا، درحقیقت اسے بجلی چوروں کے لیے سزا سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس پالیسی کے تحت بجلی کے شارٹ فال کا ایک بڑا حصہ ایسے علاقوں کو متاثر کرتا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ اتنے بڑے شارٹ فال کے دوران جن علاقوں میں کوئی نقصان نہیں ہوتا یا کم سے کم نقصان ہوتا ہے، وہ اکثر گھنٹوں تک بجلی حاصل کرتے ہیں، کم نقصان والے یا بغیر نقصان والے فیڈرز کی سروس کے دائرہ اختیار میں آنے والے علاقوں کو شہری علاقوں میں زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔

تاہم بنیادی مسئلہ ایئر کنڈیشنرز کے ضرورت سے زیادہ استعمال اور سسٹم کے اوور لوڈنگ کی وجہ سے بڑھتی ہوئی طلب ہے بالخصوص جب یہ اتنا بڑا بوجھ برداشت کے قابل نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت کے دوران ڈسکوز بروقت مٹیریل حاصل نہیں کر سکی تھیں جس کی وجہ سے اتنے گرم موسم میں بجلی کا نظام آسانی سے کام نہیں کر سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ سسٹم کو تناؤ کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے لاہور سمیت بڑے شہروں میں براؤن آؤٹ ہو رہے ہیں، دیہی علاقوں میں صورتحال سب سے زیادہ خراب ہے جہاں کے رہائشیوں کو 12 سے 16 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔

رابطہ کرنے پر پاور ڈویژن کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ہفتہ کو بجلی کی مجموعی پیداوار 22 ہزار 930 میگاواٹ رہی جس میں پن بجلی سے پیدا ہونے والی 6 ہزار 200 میگاواٹ، نیوکلیئر 3 ہزار 100 میگاواٹ، تھرمل سے 12 ہزار 800 میگاواٹ اور ہوا کے منصوبوں سے پیدا ہونے والی 830 میگاواٹ بجلی شامل ہیں۔

گیس سے چلنے والے پلانٹس فعال ہیں

وزارت پیٹرولیم کے ذرائع کے مطابق گیس سے چلنے والے تمام پلانٹس کمی کو پورا کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں، سوئی ناردرن گیس پائپ لائن تمام سرکاری گیس سے چلنے والے پاور پلانٹس بشمول بھکی، حویلی بہادر شاہ اور بلوکی تھرمل پاور پلانٹس کو 700 ایم سی ایف ڈی فراہم کر رہا ہے اور دعویٰ کیا کہ کچھ پرائیویٹ پلانٹس کو بھی گیس فراہم کی جا رہی ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ یہ کمی ڈیزل اور فرنس آئل پر چلنے والے پلانٹس کی وجہ سے تھی جو ملک میں بجلی کی پیداوار کے لیے میرٹ آرڈر کی آخری قسم ہونے کی وجہ سے فی الحال کام نہیں کر رہے تھے۔

واپڈا کے ذرائع کے مطابق پیک آور میں مجموعی ہائیڈل جنریشن 6 ہزار میگاواٹ رہی جس میں تربیلا، تربیلا فورتھ ایکسٹینشن، غازی بروتھا اور منگلا ہائیڈل پاور اسٹیشنوں سے بالترتیب 2 ہزار 800 میگاواٹ، ایک ہزار 210 میگاواٹ، ایک ہزار 150 میگاواٹ اور 230 میگاواٹ رہی جبکہ بحالی کے کاموں کی وجہ سے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ سے کوئی پیداوار نہیں ہوئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ منگلا کی بجلی پیداوار اس وقت کم ہے کیونکہ یہ پانی ارسا کی جانب سے آبپاشی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

رابطہ کرنے پر پاور ڈویژن کے ترجمان نے طلب، پیداوار اور شارٹ فال سے متعلق کوئی بھی ڈیٹا شیئر کرنے سے انکار کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کمی کے بارے میں بتانا مشکل ہے کیونکہ یہ ایک ’حساس معاملہ‘ ہونے کے ساتھ ساتھ کافی اتار چڑھاؤ کا حامل بھی ہے، متعلقہ محکموں سے ڈیٹا حاصل کرنے کے بعد اسے ڈان کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں