سپر ٹیکس امتیازی قرار، عدالت نے شرح 10 سے کم کر کے 4 فیصد کردی

اپ ڈیٹ 28 جون 2023
لاہور ہائی کورٹ نے سپر ٹیکس یکسر منسوخ کرنے سے انکار کر دیا — فائل فوٹو: ڈان
لاہور ہائی کورٹ نے سپر ٹیکس یکسر منسوخ کرنے سے انکار کر دیا — فائل فوٹو: ڈان

لاہور ہائی کورٹ نے بڑی کارپوریشنز پر سپر ٹیکس کو امتیازی قرار دیتے ہوئے 10 فیصد سے کم کر کے 4 فیصد کر دیا، تاہم ٹیکس کو یکسر منسوخ کرنے سے انکار کر دیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق منگل کو یہ حکم لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے گزشتہ سال عائد کیے گئے ٹیکس کو ختم کرنے کی درخواستوں پر دیا۔

درخواست گزاروں نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں ترمیم کو بھی چیلنج کیا، جسے فنانس ایکٹ 2022 کے ذریعے متعارف کرا کر سپر ٹیکس نافذ کیا گیا تھا۔

2022 میں 13 بڑی صنعتوں پر ’سپر ٹیکس‘ نافذ کیا گیا تھا کیونکہ حکومت نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر محصولات میں اضافے اور غریبوں کو سہارا دینے کی کوشش کی تھی۔

انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 4 سی میں ترمیم کے ذریعے سیمنٹ، اسٹیل، چینی، تیل اور گیس، کھاد، ایل این جی ٹرمینلز، ٹیکسٹائل، بینکنگ، آٹوموبائل، تمباکو، مشروبات، کیمیکل اور ایئر لائنز کے شعبوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر سپر ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔

آرڈیننس کے پہلے شیڈول کے حصہ اول کا ڈویژن ٹو بی پہلے ہی زیادہ آمدنی والے افراد پر 4 فیصد ٹیکس عائد کر چکا ہے جو ان کی آمدنی 30 کروڑ سے زائد ہونے پر لاگو ہوگا، تاہم حکومت نے ڈویژن میں ایک اضافی شق ڈال کر 13 منتخب صنعتوں کے لیے شرح کو 10 فیصد تک بڑھا دیا تھا۔

جج نے مشاہدہ کیا کہ اضافی شق نے صنعتوں کی ذیلی درجہ بندی کی جو بنیادی طور پر امتیازی سلوک تھا کیونکہ 13 مخصوص صنعتوں کو پہلے سے موجود اس سے دگنی شرح سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے کا پابند کیا گیا۔

انہوں نے مزید مشاہدہ کیا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے وکیل اور دیگر جواب دہندگان ان صنعتوں کی درجہ بندی کے لیے کوئی دلیل دینے سے قاصر رہے جن پر سپر ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔

درخواست گزاروں میں سے ایک کے وکیل نے دلیل دی کہ ان کے مؤکل اسٹاک ایکسچینج میں درج ایک لمیٹڈ کمپنی کے مالک ہیں اور جس سال کے لیے ٹیکس عائد کیا گیا تھا وہ دسمبر 2021 میں ختم ہو چکا ہے۔

ٹیکس والے سال کے لیے سالانہ جنرل میٹنگ اپریل 2022 میں ہوئی تھی اور منافع مئی 2022 میں تمام شیئر ہولڈرز میں تقسیم کر دیا گیا تھا، اس لیے سپر ٹیکس ماضی اور بند شدہ ٹرانزیکشن کی وجہ سے لاگو نہیں ہوتا تھا۔

ایف بی آر کے وکیل نے استدلال کیا کہ درخواست گزار سیکشن 4 سی کے تحت ٹیکس ادا کرنے کے ذمہ دار ہیں اور وہ آرڈیننس کے سیکشن 74 کے تحت دیے گئے فوائد سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی اور بند شدہ ٹرانزیکشن کے نظریے کی بنیاد پر ٹیکس کے اطلاق پر اعتراضات غلط ہیں کیونکہ ڈویڈنڈ اور مطلوبہ سرمایہ کاری کی ادائیگی اکاؤنٹس کو حتمی شکل دینے کے برابر نہیں تھی، اس لیے بہت سے درخواست گزار نے اپنی ٹیکس کی ذمہ داریوں سے استثنیٰ حاصل کرنے کے لیے پورے نظریے پر غلط طریقے سے انحصار کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں