چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ توشہ خانہ بینچ سے علیحدہ ہوجائیں، چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست

اپ ڈیٹ 03 جولائ 2023
توشہ خانہ کیس سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا — فائل فوٹو: اے ایف پی
توشہ خانہ کیس سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا — فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق سے غیر جانبداری اور شفافیت کے لیے توشہ خانہ کیس کی سماعت کرنے والے بینچ سے الگ ہونے کی درخواست کردی۔

بیرسٹر گوہر خان کے ذریعے دائر درخواست میں چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ مقدمے میں ابھی دلائل مکمل نہیں ہوئے لہٰذا جسٹس عامر فاروق سے شفاف سماعت اور بینچ کی غیر جانبداری برقرار رکھنے اور انصاف تک رسائی کے لیے بینچ سے الگ ہونے کی درخواست کی گئی ہے۔

عدالت سے کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے مقدمات پر کئی قانونی اور آئینی سوالات اٹھائے ہیں۔

درخواست گزار نے کہا ہے کہ بینچ کو جن مقدمات کا فیصلہ کرنا ہے ان معاملات کی مثال نہیں ملتی اور اس کے نتائج دور رس ہیں، اس لیے غیر جانبداری نظر بھی آنی چاہیے۔

درخواست میں کہا گیا کہ اس بات کا پختہ یقین ہے کہ مذکورہ بینچ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ فیصلہ نہیں کر سکتا، غیر معقول وجوہات کی بنا پر انصاف تک رسائی کے بنیادی حق سے محروم کیا گیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف متعدد جھوٹی ایف آئی آرز کا چیف جسٹس کو علم تھا، عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو ویڈیو لنک کے ذریعے حاضر ہونے کی اجازت نہیں دی اور بائیو میٹرک تصدیق سے بھی استثنیٰ نہیں دیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری غیر قانونی قرار نہیں دینا بھی خلافِ قانون فیصلے کا منہ بولتا ثبوت ہے، چیف جسٹس نے ایک اہم کیس کا فیصلہ بغیر کسی جواز کے ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنے کی اجازت نہیں دی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ حال میں ایک جج کے سیکیورٹی خدشات پر ضمانت کی درخواست دوسری عدالت منتقل کرنے پر چیف جسٹس نے کیس کی سماعت سے معذرت کر لی، معزز چیف جسٹس کی کارروائی سے ان مسائل پر غیر جانب داری سے غور کرنے کی صلاحیت پر سنگین سوالات اٹھیں گے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ انصاف، غیر جانبداری کے اصول اور قانونی طرزِ عمل کا تقاضا ہے کہ چیف جسٹس مقدمات کی سماعت سے علیحدگی اختیار کریں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سے کہا گیا ہے کہ درخواست ہے کہ مقدمات کو قانون کے مطابق آگے بڑھانے کے لیے کسی دوسرے بینچ کو منتقل کرنے کا حکم دیا جائے۔

درخواست میں ٹیریان وائٹ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دو ججوں کا فیصلہ بھی ایک پریس ریلیز کے بعد ویب سائٹ سے حذف کردیا گیا اور ایک جج نے حکم دیا تھا کہ اس فیصلے کو اپ لوڈ کیا جائے۔

درخواست میں کہا گیا کہ اس سے مذکورہ عدالت میں ہونے والی سماعت پر غیرجانب داری کے برعکس اثر کا اظہار ہوتا ہے۔

مزید بتایا گیا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی سماعت سے غیر جانبداری اور انصاف کی فراہمی پر سنجیدہ سوالات ہوں گے۔

درخواست میں کہا گیا کہ انصاف کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتر ہے کہ چیف جسٹس عامر فاروق خود کو اس کیس سے الگ کریں اور مناسب ہوگا کہ یہ کیس بھی کسی دوسرے بینچ کو منتقل کردیا جائے۔

خیال رہے کہ توشہ خانہ کیس کی سماعت تاحال مقرر نہیں کی گئی ہے۔

توشہ خانہ ریفرنس

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا، جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔

گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت ان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں کہا گیا تھا کہ یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی چیئرمین کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

فیصلے کے تحت پی ٹی آئی چیئرمین کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں