ایک دہائی قبل منقطع سفارتی تعلقات بحال، مصر اور ترکیہ نے سفیر تعینات کردیے

اپ ڈیٹ 05 جولائ 2023
رجب طیب اردوان نے کہا تھا کہ وہ عبد الفتاح السیسی جیسے کسی شخص سے کبھی بات نہیں کریں گے—فائل فوٹو: اے پی
رجب طیب اردوان نے کہا تھا کہ وہ عبد الفتاح السیسی جیسے کسی شخص سے کبھی بات نہیں کریں گے—فائل فوٹو: اے پی

مصر اور ترکیہ نے دوطرفہ تعلقات میں گرمجوشی کا اظہار کرتے ہوئے دہائی کے دوران پہلی بار ایک دوسرے کے ممالک میں سفیر تعینات کردیے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق مصر اور ترکیہ دونوں نے دوطرفہ سفارتی تعلقات کو وسعت دیتے ہوئے سفرا کی تعیناتی کے بیانات جاری کردیے۔

دونوں ممالک کی وزرات خارجہ نے اپنے بیانات میں کہا کہ سفرا کی تعیناتی کے اقدام کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا دوطرفہ تعلقات کو وسعت دینے کی باہمی خواہش کا عکاس ہے۔

مصر نے ترکیہ میں امر الہامی کو اپنا نیا سفیر نامزد کیا جبکہ ترکیہ نے صالح متلو سین کو قاہرہ میں اپنا سفیر نامزد کیا ہے۔

دونوں ممالک کی جانب سے سفرا کی تعیناتی مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اور ان کے ترک ہم منصب رجب طیب اردوان کے درمیان ہم آہنگی کی نشاندہی کرتی ہے۔

دونوں ممالک کے تعلقات ایک دہائی قبل اس وقت منقطع ہو گئے تھے جب مصر کے اس وقت کے وزیر دفاع عبد الفتاح السیسی نے ترکیہ کے اتحادی اور اخوان المسلمین تحریک کا حصہ اسلام پسند صدر محمد مرسی کو معزول کر دیا تھا۔

اس وقت رجب طیب اردوان نے کہا تھا کہ وہ عبد الفتاح السیسی جیسے کسی شخص سے کبھی بات نہیں کریں گے، عبد الفتاح السیسی 2014 میں عرب دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے صدر بنے تھے۔

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کے ابتدائی آثار مئی 2021 میں اس وقت سامنے آئے جب ترکیہ کے وفد نے تعلقات ممکنہ معمول پر لانے سے متعلق بات چیت کے لیے مصر کا دورہ کیا۔

گزشتہ سال نومبر میں رجب طیب اردوان اور عبد الفتاح السیسی نے قطر میں مصافحہ کیا جسے مصری ایوان صدر نے تعلقات کے نئے دور کا آغاز قرار دیا، بعد ازاں دونوں رہنماؤں نے فروری میں ترکیہ اور شام میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد ٹیلی فون پر بات چیت بھی کی۔

جب دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات طویل عرصے سے سرد مہری کا شکار تھے اس وقت بھی دوطرفہ تجارت جاری رہی، 2022 میں ترکیہ، مصری اشیا کا سب سے بڑا درآمد کنندہ تھا جس کی مجموعی مالیت 4 ارب ڈالر تھی۔

دوطرفہ اختلافات اب بھی برقرار ہیں کیونکہ ترکیہ میں بہت سے عرب صحافی قیام پذیر ہیں جو اپنی حکومتوں پر تنقید کرتے ہیں، ان میں وہ صحافی بھی شامل ہیں جو خاص طور پر اخوان المسلمون کے قریب سمجھے جاتے ہیں جن پر قاہرہ نے پابندی عائد کر رہی ہے۔

مصر اور ترکیہ تنازعات کا شکار لیبیا میں مخالف فریقوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں جہاں دو حریف انتظامیہ اقتدار کی کھینچا تانی میں مصروف ہیں، ترکیہ نے طرابلس میں عالمی سطح پر حمایت یافتہ حکومت کی فوجی امداد کی جبکہ مصر نے ملک کے مشرق میں موجود طاقتور فوجی خلیفہ کی حمایت کی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں