اسپیشل اولمپکس: طلائی تمغہ جیتنے والے سفیر عابد اب زیادہ پُراعتماد ہیں

13 جولائ 2023
سفیر عابد طلائی تمغہ جیتنے والے دیگر فاتحین کے ساتھ برلن میں کھڑے ہیں—تصویر: ایس او پی
سفیر عابد طلائی تمغہ جیتنے والے دیگر فاتحین کے ساتھ برلن میں کھڑے ہیں—تصویر: ایس او پی

رات 2 بجے شاہراہِ فیصل پر ایک سائیکل سوار تیزی سے سائیکل چلا رہا ہے جبکہ ایک گاڑی مسلسل اس کا تعاقب کررہی ہے۔ یہ کسی تھریلر فلم کے سین جیسا لگ رہا ہے۔

لیکن یہ سفیر عابد ہیں جوکہ جرمنی کے شہر برلن میں منعقد ہونے والے اسپیشل اولمپکس کے لیے مشق کررہے ہیں۔ تعاقب کرنے والی گاڑی ان کے والد صاحب چلا رہے ہیں جبکہ ان کے ساتھ سفیر عابد کی والدہ بھی موجود ہیں۔ وہ ایسا اپنے بیٹے کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کررہے ہیں۔

سفیر نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، تب سے انہیں سائیکلنگ کرنا پسند ہے۔ ان کی والدہ عنبرین عابد کہتی ہیں کہ وہ 4 سال کی عمر میں ہی سائیکل چلانا چاہتے تھے۔ ’ہم اس کے لیے سائیکل ضرور لائے لیکن اس میں چھوٹے 2 پہیے بھی نصب تھے‘۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے بیٹے کو کسی معاونت کے بغیر سائیکل چلانا سیکھنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔

وہ مسکراتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’تب سے وہ سائیکل چلا رہا ہے۔ پہلے گھر پر اور پھر سی ویو اور شاہراہِ فیصل پر‘۔

سفیر کے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں جنہیں کھیلوں سے خاص لگاؤ ہے اور وہ اپنے بھائی کو بھرپور سپورٹ کرتے ہیں۔ ان کی والدہ بتاتی ہیں کہ ’سفیر میرے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ میرے ایک بیٹے کو کرکٹ کھیلنا پسند ہے جبکہ دوسرے کو فٹبال سے لگاؤ ہے۔ میری سب سے بڑی بیٹی باسکٹ بال کھیلتی ہے اور وہ این ای ڈی یونیورسٹی کی ٹیم کا بھی حصہ ہے۔ میری سب سے چھوٹی بیٹی 9 سال کی ہے لیکن اسے بھی کھیلوں کی سرگرمیوں میں دلچسپی ہے۔ میرے تمام بچوں کو کھیلوں سے دلچسپی اپنے والد سے وراثت میں ملی ہے جو خود والی بال کھیلتے تھے‘۔

سفیر کے والد غلام عابد رضوی، جونیئر پاکستان والی بال چیمپئن ہیں۔ غلام عابد رضوی بتاتے ہیں کہ ’میں نے انڈر 16، انڈر 19 اور انڈر 21 جیسے تمام جونیئر ٹورنامنٹس میں حصہ لیا ہے‘۔ بدقسمتی سے ایک حادثے میں ان کے کاندھے پر چوٹ آئی اور وہ پھر دوبارہ قومی سطح پر نہیں کھیل پائے۔ لیکن اس نے انہیں اپنے بچوں میں کھیلوں کی محبت پیدا کرنے سے نہیں روکا۔

سفیر کے والد بتاتے ہیں کہ ’جب ہمیں احساس ہوا کہ سفیر سیکھنے کے حوالے سے سست ہے اور اسے بولنے میں دشواری اور سیکھنے میں مسائل کا سامنا ہے تو ہم نے اس کی حوصلہ افزائی کہ وہ سائیکلنگ کا اپنا ذوق جاری رکھے کیونکہ سفیر میں سائیکلنگ میں مہارت حاصل کرنے کی صلاحیت موجود تھی‘۔

سفیر عابد کے والدین اس امید کے ساتھ انہیں اسپیشل اولمپکس پاکستان (ایس او پی) لے کر آئے کہ وہ سائیکلنگ میں کوچنگ یا کچھ رہنمائی حاصل کرسکیں۔ یہ ایک ایسا تجربہ تھا جس نے سفیر کی زندگی بدل دی۔ ایس او پی میں انہیں اسپیچ تھیراپی فراہم کی گئی جس کی وجہ سے ان کی ابلاغی صلاحیتوں میں بہتری آئی۔ یہیں سفیر کی ملاقات اپنے کوچ عادل لاکھو سے ہوئی۔

  سائیکلنگ سے کامیابی تک کا سفر
سائیکلنگ سے کامیابی تک کا سفر

22 سالہ سائیکلنگ کوچ عادل لاکھو کہتے ہیں کہ ’سال 2020ء میں جب کورونا عروج پر تھا، تب میں اس ادارے میں نیا تھا۔ درحقیقت سفیر سے میری ملاقات یہاں میرے ابتدائی دنوں میں ہوئی تھی‘۔ وہ ہمیں مزید بتاتے ہیں کہ برلن جانے والے پاکستان اسپیشل اولمپکس کے وفد میں وہ واحد کوچ تھے جو وفد میں شامل چند ایتھلیٹس سے بھی کم عمر تھے۔

اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کوچ عادل لکھو سائیکلنگ میں مہارت حاصل کرنے اور ملک کے لیے اعزازات جیتنے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ لیکن ایک حادثے کے نتیجے میں گھٹنے میں آنے والی چوٹ کے باعث ان کا یہ خواب چکنا چور ہوگیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’اس وقت میں سندھ کی سائیکلنگ ٹیم کا حصہ بننے والا تھا۔ جب اچانک میرا یہ خواب لاحاصل ثابت ہوا تب میں نے کوچنگ کی جانب جانے کا فیصلہ کیا تاکہ میں مکمل طور پر اس کھیل سے لاتعلق نہ ہوں۔ پھر 3 سال قبل میں اسپیشل اولمپکس پاکستان سے منسلک ہوا‘۔

وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ انہوں نے مختلف کھیلوں میں اپنی ٹیمیں کیسے تشکیل دیں۔

’انٹر اسکول چیمپیئن شپ میں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد ایتھلیٹس کو ان کے اسکولوں سے نامزد کیا جاتا ہے۔ جب وہ یہاں بھرتی ہوجاتے ہیں تب ہم ان پر مزید کام کرتے ہیں۔ ایتھلیٹس کو سمجھنے کے لیے ہم ایسے کیمپس بھی لگاتے ہیں جہاں وہ ہمارے ساتھ رہیں۔ یوں ہم ان کی ذاتی عادات اور ان کی طبی ضروریات کو سمجھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ آیا وہ اپنے والدین کے بغیر رہ پائیں گے یا نہیں۔ کوچز بھی کیمپ میں حصہ لیتے ہیں۔ یوں ہمارے اور ایتھلیٹس کے تعلقات بہتر ہوتے ہیں۔ اس طرح ان کے خاندان کے بجائے، ہم ان کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کے ذمہ دار بن جاتے ہیں جبکہ ہم کھیلوں میں مہارت حاصل کرنے میں بھی ان کی مدد کرتے ہیں‘۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اپنے کھلاڑیوں کی صلاحیت دیکھتے ہوئے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔ لیکن ہمیں ان کے حریفوں کے بارے میں نہیں پتا ہوتا کیونکہ وہ معروف کھلاڑی نہیں ہوتے جن کی ویڈیوز دیکھ کر اور کھلاڑیوں کو دکھا کر ہم انہیں تیاری کرواسکیں۔ تو ہم اپنے ایتھلیٹس اور اپنی ٹریننگ پر بھروسہ کرکے ایسے مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں‘۔

  سفیر عابد اپنے کوچ عادل لاکھو کے ساتھ
سفیر عابد اپنے کوچ عادل لاکھو کے ساتھ

پاکستانی کھلاڑیوں کے دستے نے اسپیشل اولمپکس گیمز میں مجموعی طور پر 80 تمغے جیتے جن میں سے 11 سونے، 29 چاندی جبکہ 40 کانسی کے تمغے شامل ہیں۔ سفیر عابد نے 25 کلومیٹر روڈ ریس کے دوران سب سے پہلے چاندی کا تمغہ جیتا، جو کہ اس مقابلے کی سب سے طویل ریس ہے۔ بعدازاں سفیر عابد نے 10 کلومیٹر کے ٹائم ٹرائل میں سونے کا تمغہ جیتا۔

عادل لاکھو کہتے ہیں کہ ’بنیادی طور پر روڈ ریس میں دیگر سائیکل سوار بھی ہوتے ہیں تو انہیں اوور ٹیک کرکے آگے جایا جاسکتا ہے لیکن ٹائم ٹرائل ریس میں ایک دوسرے کا موازنا وقت سے کیا جاتا ہے۔ آپ دوسرے حریفوں کے بارے میں تب تک نہیں جان پائیں گے جب تک ریس ختم نہیں ہوگی‘۔

سفیر عابد کے والدین ایس او پی کے فیملی سپورٹ نیٹ ورک کا بھی حصہ ہیں جہاں ایتھلیٹس کے خاندان ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں تاکہ خصوصی بچوں کے حوالے سے آگاہی پھیلانے میں مدد فراہم کی جاسکے اور یہ کہ کیسے ان بچوں کو ایک قابل انسان بنایا جاسکتا ہے۔

سفیر کے والد، دیگر 7، 8 والدین کے ہمراہ اپنی جیب سے بچوں کو خوش کرنے کے لیے برلن گئے تھے۔ سفیر کے والد نے گیمز میں بہت سی ویڈیوز اور تصاویر بنا کر بھی تمام پاکستانی کھلاڑیوں کی مدد کی۔

سفیر کی والدہ کا کہنا ہے کہ وہ توقع کر رہی تھیں کہ ان کے شوہر انہیں کھلاڑیوں بالخصوص ان کے بیٹے کی شاندار کارکردگی کے بارے میں پُرجوش پیغامات اور کالز کریں گے ’لیکن اس کے بجائے مجھے یہ تمام معلومات کوچ عادل لاکھو نے دیں‘۔

وہ کہتی ہیں کہ سفیر اپنے چچا کے بہت قریب ہے۔ وہ ہنستے ہوئے ایک واقعہ بتاتی ہیں کہ ’جب وہ برلن کے لیے روانہ ہورہا تھا تو اس کے چاچو نے اسے کہا کہ تمغے کے بغیر واپس نہ آنا کیونکہ اگر وہ جیت نہیں پایا تو چاچو ایئر لائنز سے کہیں گے کہ وہ واپسی کی فلائٹ کو پاکستان میں اترنے سے پہلے انڈیا کے لیے موڑ دیں اور سفیر کو وہاں اتار دیں۔ سفیر نے اس پر یقین کرلیا اور وہ ڈر گیا‘۔

اس کے بعد وہ قدرے سنجیدہ ہوکر کہتی ہیں کہ انہوں نے برلن سے واپسی کے بعد اپنے بیٹے میں کافی تبدیلی دیکھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں دیکھ سکتی ہوں کہ وہ زیادہ پُراعتماد ہوگیا ہے اور وہ بہت باتونی بھی ہوگیا ہے‘۔

سفیر عابد کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ملک کے لیے 2 تمغے جیت کر بہت خوشی اور فخر محسوس کررہے ہیں۔ وہ دوبارہ مقابلہ کرنا چاہتے ہیں لیکن خصوصی اولمپکس کے قوانین کے مطابق، ایک کھلاڑی صرف ایک بار کسی کھیل میں حصہ لے سکتا ہے۔ ٹورنامنٹ میں دوبارہ حصہ لینے کے لیے کھلاڑیوں کو کسی اور کھیل کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ سفیر پہلے ہی اپنی نظریں پاور لفٹنگ پر مرکوز کرچکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ مجھے کافی دلچسپ لگتا ہے، اس لیے میں اسے آزمانا چاہتا ہوں‘۔ لیکن اگلے ٹورنامنٹ کے انعقاد میں ابھی وقت باقی ہے۔

اس دوران وہ کوچنگ پر بھی توجہ دینا چاہتے ہیں۔ سفیر کہتے ہیں کہ ’میں سائیکلنگ کی کوچنگ میں سر عادل کی مدد کرنا چاہتا ہوں‘۔

یہ سن کر کوچ مسکرا دیے اور کہنے لگے کہ ’اس سے انہیں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بڑھانے میں بھی مدد ملے گی‘۔


یہ مضمون 9 جولائی 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں