سندھ اسمبلی: بلدیاتی حکومت کے سربراہان کو زیادہ اختیارات دینے کا ترمیمی بل منظور

اپ ڈیٹ 21 جولائ 2023
اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی حاضری بہت کم رہی — فائل فوٹو: آن لائن
اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی حاضری بہت کم رہی — فائل فوٹو: آن لائن

سندھ اسمبلی نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں متعدد اہم ترامیم کو متفقہ طور پر منظور کر لیا، جس کے تحت میئرز اور میونسپل کارپوریشنز کے چیئرمین کو زیادہ اختیارات مل گئے ہیں، تاہم اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی حاضری بہت کم رہی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر برائے پارلیمانی امور مکیش کمار چاؤلہ نے سندھ لوکل گورنمنٹ (دوسری ترمیم) بل 2023 پیش کیا، جسے حکومتی بینچوں کی جانب سے ترامیم پر بغیر کسی وضاحت یا بیان کے منظور کر لیا گیا۔

بل کے مطابق سندھ بھر میں میئر یا چیئرمین شہر کی مختلف کارپوریشنز کی ڈیولپمنٹ اتھارٹیز اور دیگر سوک ایجنسیوں کے سربراہ ہوں گے، جو ان کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ڈیولپمنٹ اتھارٹیز کے تمام ملازمین کو کونسل کے ملازمین کے طور پر تصور کیا جائے گا اور ان کے ساتھ کونسل سروس کے ضوابط کے مطابق سلوک کیا جائے گا، اس شرط کے ساتھ کہ کسی بھی ملازم کو ایسی ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے کارپوریشن یا کونسل کے دائرہ اختیار میں آنے والی کسی دوسری اتھارٹی یا بورڈ میں منتقل نہیں کیا جائے گا۔

مقامی حکومتوں کے قوانین میں ترامیم نے کارپوریشنز اور ڈسٹرکٹ کونسلز میں متعدد اضافی کاموں کا بھی تصور کیا گیا ہے۔

بل کے مطابق کراچی کے میئر کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے ساتھ ساتھ دیگر ترقیاتی اداروں کے چیئرمین بھی ہوں گے۔

بل کے مطابق سٹی میئر کو یہ بھی اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور سندھ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو کے لیے تین، تین نام تجویز کرے گا۔

اسی طرح میئر یا دیگر کارپویشن میں چیئرمین اپنے متعلقہ دائرہ اختیار میں ڈیولپمنٹ اتھارٹیز کی سربراہی بھی کرے گا اور اتھارٹیز کے چیف ایگزیکٹو کے لیے ناموں کو تجویز کرے گا۔

ترمیم شدہ بل میں کہا گیا ہے کہ ایکٹ کے تحت منتخب ہونے والی کونسل کے پہلے اجلاس کے 30 دن کے اندر صوبائی مالیاتی کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ پی ایف سی کی تشکیل کے 180 روز کے اندر تجاویز کو حتمی شکل دی جائے گی۔

بل کے مطابق پی ایف سی تجاویز سے قبل آبادی اور علاقوں کی پسماندگی کو مدنظر رکھ سکتی ہے۔

ریونیو اکٹھا کرنا

بل نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کو ایک یا زیادہ ٹیکسز کو یکجا کرنے، ریٹس، ٹول، فیس وغیرہ کو اپنے ذرائع سے یا کسی تیسرے فریق کے ذریعے معاہدہ کرکے وصول کرنے کا اختیار بھی دیا۔

ترمیمی بل میں صحت کی سہولیات اور اسکولوں کا انتظام دوبارہ کے ایم سی کو دیا گیا ہے، صوبائی حکومت نے 2021 میں ترمیم کے ذریعے یہ اختیار واپس لے لیا تھا۔

اسی طرح کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج، عباسی شہید ہسپتال، سوبراج میٹرنٹی ہوم، سرفراز شہید ہسپتال، اسپینسر آئی ہسپتال اور لیپروسی ہسپتال کا انتظامی کنٹرول بھی واپس کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کو دے دیا گیا۔

اسمبلی میں سندھ اپرینٹس شپ بل 2023 بھی منظور کر لیا گیا۔

قانون سازوں کی عدم دلچسپی

168 اراکین کے ایوان میں بمشکل 30 قانون ساز موجود تھے، پاکستان تحریک انصاف کے اراکین 9 مئی واقعات کے بعد سے اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے۔

وقفہ سوالات میں کسی بھی سوال کو نہیں لیا گیا کیونکہ اسے پیش کرنے والا کوئی بھی ایوان میں موجود نہیں تھا۔

ماحول، موسمیاتی تبدیلی اور ساحلوں پر ترقیاتی کاموں سے متعلق تحریری سوال متحدہ مجلس عمل کے سید عبدالرشید، پی ٹی آئی کے ارسلان تاج، خرم شیر زمان، شہزاد قریشی اور ڈاکر سیما ضیا اور گرینڈ دیموکریٹک الائنس کی نصر سحر عباسی کی جانب سے پوچھا گیا۔

عبدالرزاق اور عارف مصطفیٰ جتوئی اور تحریک انصاف کے منحرف رکن ملک شہزاد اعوان کی جانب سے تین توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب بھی نہیں دیا گیا کیونکہ وہ بھی ایوان میں موجود نہیں تھے۔

بعد ازاں، اسمبلی کا اجلاس (آج) جمعہ تک ملتوی کر دیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں