ہائی کورٹس اپیلوں میں حقائق کا ازسرنو جائزہ نہیں لے سکتیں، جج سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 23 جولائ 2023
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ درحقیقت، ہائی کورٹ نے حقائق کی جگہ اور فیصلہ کیا — فائل فوٹو
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ درحقیقت، ہائی کورٹ نے حقائق کی جگہ اور فیصلہ کیا — فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ہائی کورٹس، مقامی عدالتوں کی طرف سے پہلے ہی طے کردہ مقدمات پر دوبارہ جائزہ یا دوبارہ تعین نہیں کر سکتیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز جاری کردہ فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ اعلیٰ عدالتیں صرف دائرہ اختیار کی غلطیوں اور طریقہ کار کی غلطیاں درست کر سکتی ہیں اور انصاف کے مناسب انتظام کو یقینی بنا سکتی ہیں۔

جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس سید حسن اظہر رضوی پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے دسمبر 2022 میں پشاور ہائی کورٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک فیصلے کے خلاف دائر کی گئی درخواست مسترد کرتے ہوئے ایسا فیصلہ سنایا۔

یہ درخواست حماد حسن نامی شہری نے دائر کی تھی جن کو فیملی کورٹ نے اپنی اہلیہ اور بیٹے کو حقِ مہر اور دیکھ بھال کا الاؤنس دینے کا حکم دیا تھا۔

شہری حماد حسن نے 2014 میں اسما بخاری نامی خاتون سے شادی کی تھی جس سے ان کے ہاں ایک بیٹے کی پیدائش بھی ہوئی تھی، مارچ 2015 میں اہلیہ نے کوہاٹ کی فیملی کورٹ میں حق مہر، دیکھ بھال کے لیے الاؤنس کی ادائیگی کے لیے درخواست دائر کی تھی۔

فیملی کورٹ نے اسما بخاری کو نکاح نامے کے تحت حق مہر کے 3 لاکھ روپے اور پانچ مرلہ گھر میں آدھا حصہ دینے کا فیصلہ سنایا تھا۔

عدالت نے حماد حسن کو حکم دیا تھا کہ جب تک حق مہر کی کُل رقم ادا نہیں کی جاتی اور علیحدگی نہیں ہوجاتی تب تک وہ اہلیہ کو اخراجات ادا کریں۔

علاہ ازیں عدالت نے انہیں یہ بھی حکم دیا تھا کہ جب تک ان کا بیٹا فیصلہ بلوغت کی عمر تک نہیں پہنچ جاتا تب تک وہ سالانہ 10 فیصد اضافے کے ساتھ اپنی اہلیہ کو اس کی دیکھ بھال کے اخراجات ادا کریں جس کا اطلاق فروری 2015 سے ہونا تھا۔

اسما بخاری کو عدالت نے ڈیلیوری کے وقت ہونے والے طبی اخراجات کی وصولی کی بھی اجازت دی تھی۔

ادھر حماد حسن نے اس فیصلے کو ضلعی جج کے سامنے چیلنج کیا تھا جنہوں نے میرٹ کے بغیر کیس کو خارج کر دیا تھا۔

بعد ازاں انہوں نے اس فیصلے پر پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ فیملی کورٹ کا فیصلہ غلط فہمی ہے جو کہ ثبوتوں کو بغیر پڑھے سنایا گیا تھا۔

درخواست گزار نے مقدمے کے حقائق پر مبنی پہلوؤں کو چیلنج کیا نہ کہ ٹرائل کورٹ کی طرف سے کسی قانونی غلطی یا دائرہ اختیار کی خلاف ورزی کو، تاہم پشاور ہائی کورٹ نے اپیل کی اجازت دی اور کیس کی حقائق پر سماعت کی۔

تاہم پشاور ہائی کورٹ نے بھی میرٹ پر پورا نہ اترنے پر دسمبر 2022 میں درخواست مسترد کردی تھی۔

سپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک نے فیصلے میں لکھا کہ مقدمے کے دوبارہ دلیل درخواست گزار کو دوسری اپیل دائر کرنے کے مترادف تھی جسے مقدمے کے نتائج سے قطع نظر قبول نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ اپیل کا حق ایک آئینی تخلیق ہے، چاہے مقننہ کی طرف سے فراہم کیا گیا ہے یا نہیں، اگر قانون اپیل کے دو مواقع فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تو اس نے واضح طور پر ایسا کیا ہوگا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ قانون نے دوسری اپیل کے لیے آپشن فراہم نہیں کیا کیونکہ خاص طور پر گھریلو مقدمات میں طویل تنازع کا مقصد نہیں ہوتا۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اس نقطہ نظر کا مقصد قانونی تنازعات کے مؤثر اور فوری حل کو یقینی بنانا ہے۔

سپریم کورٹ کے ماضی کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ قانونی مؤقف یہ ہے کہ ہائی کورٹس کا آئینی دائرہ اختیار نظر ثانی یا اپیل کا متبادل نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئینی دائرہ اختیار میں ہائی کورٹ شواہد کی دوبارہ جانچ نہیں کر سکتی اور اپنے حقائق پر مقدمے کا فیصلہ نہیں کر سکتی، مزید کہا کہ مقامی عدالتوں کے فیصلوں میں مداخلت کچھ مخصوص مقدمات میں کی جا سکتی ہے۔

سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ زیر بحث کیس میں ہائی کورٹ اس وقت مداخلت کر سکتی تھی جب انصاف کی فراہمی میں کوئی خرابی ہوتی، لیکن کیس میں اس قسم کی کوئی چیز ثابت نہیں ہوئی۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئینی دائرہ اختیار میں ہائی کورٹ شواہد کی دوبارہ جانچ نہیں کر سکتی اور اپنے حقائق پر کیس کا فیصلہ نہیں کر سکتی، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ماتحت عدالتوں کے فیصلوں میں مداخلت محدود معاملات میں ’ایک استثنیٰ کے طور پر کی جا سکتی ہے نہ کہ اصول کے طور پر‘۔

انہوں نے وضاحت کی کہ آرٹیکل 199 کا مقصد انصاف کو فروغ دینا، حقوق کا تحفظ کرنا اور کسی بھی غلطی کو درست کرنا ہے، جس کے لیے اس نے اعلیٰ عدالتوں کو اختیار دیا ہے کہ وہ مقامی عدالتوں کے دائرہ اختیار کے غلط یا ضرورت سے زیادہ استعمال کو درست کریں اور طریقہ کار کی غیر قانونی یا بے ضابطگی کو دور کریں جس سے کسی مقدمے میں تعصب ہو سکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں