رکن قومی اسمبلی کی یونیورسٹیز سے متعلق مزید بلوں کی منظوری روکنے کیلئے کورم کی نشاندہی

اپ ڈیٹ 04 اگست 2023
عبد الاکبر چترالی نے بلوں کی جلد بازی میں منظوری پر ہونے والی تنقید کی جانب توجہ مبذول کرائی — فوٹو: ڈان نیوز
عبد الاکبر چترالی نے بلوں کی جلد بازی میں منظوری پر ہونے والی تنقید کی جانب توجہ مبذول کرائی — فوٹو: ڈان نیوز

اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے قانون ساز نے قومی اسمبلی میں کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کرتے ہوئے ملک میں مزید یونیورسٹیوں کے قیام کے بل کی منظوری روک دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی نے اسپیکر راجا پرویز اشرف کو مجبور کردیا کہ وہ حکومت کی جانب سے ضمنی ایجنڈے کے تحت لائے گئے قانون سازی کے باقی کام کو ترک کرتے ہوئے اجلاس جمعے کی صبح تک ملتوی کردیں۔

جماعت اسلامی کے رکن مولانا عبدالاکبر چترالی نے کورم کی کمی کی نشاندہی کی، کورم کے لیے کم از کم 25 فیصد اراکین (342 رکنی ایوان میں سے 86) کی موجودگی ضروری ہے۔

انہوں نے ملک میں مزید یونیورسٹیوں کے قیام سے متعلق متعدد بلوں کی مخالفت کرنے پر تحریک پیش کرنے والوں کے ساتھ ساتھ اسپیکر کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے بعد احتجاج میں کورم کی نشاندہی کی۔

اس معاملے پر اراکین کے ساتھ لفظی جنگ سے قبل جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی نے ذاتی رنجش کی وجہ سے اسلام آباد میں فیڈرل پراسیکیوشن سروس کے قیام کے بل کی منظوری کو بھی روک دیا تھا۔

اسپیکر جو پہلے ہی وقفہ سوالات سمیت کئی ایجنڈا آئٹمز ملتوی کرچکے تھے، ان کے پاس وزرا کی غیر موجودگی کی وجہ سے بل روکنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

لیکن اجلاس ملتوی کیے جانے سے قبل حکومت 8 بل منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی تھی جن میں سے ایک بل میں انسٹی ٹیوٹ آف گجرات کے قیام کا مطالبہ بھی شامل تھا جسے مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے ارمغان سبحانی نے پیش کیا تھا، ان 8 بلز میں سے زیادہ تر بل اسی روز اجلاس میں پیش کیے گئے اور حکومت نے اسمبلی کے متعدد قواعد کو معطل کرکے ان کی منظوری طلب کی۔

ڈرامہ اس وقت شروع ہوا جب اسپیکر نے ضمنی ایجنڈے کے تحت قانون سازی کا کام شروع کیا جو کہ گزشتہ ایک، دو ہفتوں سے معمول بن چکا ہے، ضمنی ایجنڈے میں نئی یونیورسٹیوں کے قیام کے لیے مزید بل بھی شامل تھے۔

اس پر عبدالاکبر چترالی نے ایوان کی توجہ یونیورسٹی کے بلوں کی جلد بازی میں منظوری پر میڈیا میں ہونے والی تنقید کی جانب مبذول کرائی۔

انہوں نے کہا کہ یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ ایم این اے ان لوگوں سے پیسے لے رہے ہیں جنہوں نے تعلیم کو کاروبار بنا رکھا ہے جو طلبہ کا استحصال ایک مافیا کے طور پر کر رہے ہیں۔

اسپیکر نے بلوں کو پیش کرنے والوں بھی کا دفاع کیا اور کہا کہ وہ پہلے ہی ایک رولنگ دے چکے ہیں کہ ان نئی یونیورسٹیوں کا قیام ضابطہ اخلاق کی تکمیل اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی منظوری سے مشروط ہو گا۔

وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین نے کہا کہ بلوں کی منظوری کا مطلب ان کے چارٹر کی منظوری ہے جس کے بعد یونیورسٹیوں کو ڈگریاں جاری کرنے کا اختیار مل گیا۔

انہوں نے کچھ مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹیوں نے ایچ ای سی کی اجازت کے بغیر چارٹر کی منظوری کے فوری بعد کلاسز شروع کر دیں اور ان میں سے کچھ نے ڈگریاں بھی جاری کیں، جن کی بعد میں ایچ ای سی نے تصدیق نہیں کی جس سے ہزاروں طلبہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

تبصرے (0) بند ہیں