وزیراعظم کی مذاکرات کی پیش کش پر بھارت نے ’روایتی مؤقف‘ دہرا دیا

05 اگست 2023
رواں برس جنوری میں بھی پاکستانی وزیر اعظم نے بھارت کے ساتھ تمام حل طلب معاملات پر بات چیت کرنے کی پیشکش کی تھی—فوٹو: ٹوئٹر
رواں برس جنوری میں بھی پاکستانی وزیر اعظم نے بھارت کے ساتھ تمام حل طلب معاملات پر بات چیت کرنے کی پیشکش کی تھی—فوٹو: ٹوئٹر

وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بھارت کے ساتھ بات چیت پر آمادگی کے اظہار کے جواب میں بھارت کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اور دشمنی سے پاک ماحول مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے ضروری ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بھارت نے اس ردعمل میں اپنا وہی روایتی مؤقف دہرایا جو اس نے رواں برس کے شروع میں بھی اس وقت اظہار کیا تھا جب وزیر اعظم شہباز شریف نے مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔

رواں ہفتے منگل کو اسلام آباد میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کراچی شپ یارڈ میں ملجم کلاس جنگی بحری جہاز کی لانچنگ تقریب سے خطاب کے دوران بھارت کے ساتھ بات چیت پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک سنجیدہ مسائل پُرامن اور بامعنی بات چیت کے ذریعے حل نہیں کیے جاتے، دونوں ممالک ’عام پڑوسی‘ نہیں ہو سکتے، انہوں نے بھارت کا نام نہیں لیا تھا لیکن اشارہ واضح تھا۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ہفتہ وار بریفنگ میں میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے پاکستانی وزیر اعظم کے تبصروں سے متعلق رپورٹس دیکھی ہیں، اس معاملے پر بھارت کا واضح اور مستقل مؤقف سب کو معلوم ہے، ہم پاکستان سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ نارمل تعلقات چاہتے ہیں، اس کے لیے دہشت اور دشمنی سے پاک ماحول ناگزیر ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ کوئی نیا مؤقف نہیں ہے، ہم پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں اور میں آج اسے دوبارہ دہرا رہا ہوں۔

یاد رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان نے گزشتہ 75 سالوں میں 3 جنگیں لڑیں جس کے نتیجے میں معاشی بدحالی اور وسائل کی کمی ہوئی، کیا یہ وہ طریقہ ہے جسے ہم اپنا کر معاشی سبقت حاصل کرسکیں گے؟

انہوں نے کہا تھا کہ یہ پڑوسی ملک ہی ہے جس کو سمجھنا ہوگا کہ ہم اس وقت تک نارمل پڑوسی نہیں بن سکتے جب تک کہ اختلافات کو دور نہیں کیا جاتا، جب تک کہ ہمارے درمیان موجود سنگین مسائل کو پرامن اور بامعنی بات چیت کے ذریعے سمجھا اور حل نہیں کیا جاتا۔

’دی وائر‘ نے یاددہانی کروائی کہ رواں برس جنوری میں بھی پاکستانی وزیر اعظم نے بھارت کے ساتھ تمام حل طلب معاملات پر بات چیت کرنے کی پیشکش کی تھی، تاہم بعدازاں وزیراعظم آفس سے جاری بیان میں واضح کیا گیا تھا کہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے کے 5 اگست 2019 کے فیصلے سے دستبرداری کے بعد ہی بات چیت ہو سکتی ہے۔

بھارت کا جواب تھا کہ وقت مناسب نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے ایک سازگار ماحول ہونا چاہیے جس میں دہشت، دشمنی یا تشدد نہ ہو۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں