’ہائبرڈ ماڈل‘ سیاستدانوں کو سیدھے راستے پر رکھتا ہے، عارف حبیب

اپ ڈیٹ 06 اگست 2023
عارف حبیب نے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ پر بھی سخت تنقید کی — فوٹو: ڈان
عارف حبیب نے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ پر بھی سخت تنقید کی — فوٹو: ڈان

ممتاز صنعت کار عارف حبیب نے سیاست دانوں کو ’صحیح راستے‘ پر رکھنے کے لیے گورننس کے ’ہائبرڈ سسٹم‘ کی مکمل حمایت کی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حبیب پبلک اسکول ایلومنی ایسوسی ایشن (ایچ پی ایس اے اے) کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایک درجن سے زائد معاشی شعبوں میں خاطر خواہ شیئر رکھنے والے پاکستان کے سب سے بڑے گروپوں میں سے ایک گروپ کے چیئرمین نے کہا کہ جب معاشی معاملات کی بات آئے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کو غیر جانبدار نہیں رہنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہائبرڈ ماڈل عملی ہے، دوست ممالک کے سربراہان (منتخب لیڈروں کے بجائے) آرمی چیف سے ملتے ہیں، یہ ماڈل شاید پسندیدہ نہ ہو لیکن یہ کام کرتا ہے۔

انہوں نے ماضی قریب کی بہت سی مثالوں پر روشنی ڈالی جب فوجی سربراہ کی براہ راست مداخلت نے عالمی اداروں اور دوست ممالک سے بیل آؤٹ پیکج اور معاشی مراعات حاصل کرنے میں ملک کی مدد کی۔

خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے فوج کی حمایت کے ساتھ قائم کردہ ادارہ اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کی تشکیل کا خیر مقدم کرتے ہوئے عارف حبیب نے کہا کہ کان کنی، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور تعمیرات کے شعبے میں زرمبادلہ کی آمد ملک کی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔

عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ کے سی ای او نے کہا کہ بلند شرح ٹیکس، یوٹیلیٹی بلز کی بڑھتی قیمتوں اور فنڈز کی بھاری لاگت کی وجہ سے پاکستان علاقائی سطح پر دیگر ممالک سے مسابقت کی صلاحیت کھو چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں منفی شرح سود ہونی چاہیے، یعنی بینچ سود کی شرح مہنگائی کی شرح سے کم ہو تاکہ قرض حاصل کرنے کی مد میں سالانہ 2.5 ٹریلین روپے تک کی بچت ہو سکے، اس کے بعد اضافی نقد کو ٹارگٹڈ سبسڈی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

اسلام آباد میں آنے والی سیاسی تبدیلی سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے عارف حبیب نے خبردار کیا کہ ہر آنے والی حکومت کو جانے والی حکومت سے مالیاتی خسارہ ملتا ہے جس کی وجہ انتخابی حمایت حاصل کرنے کے لیے جانے والی حکومت کے اضافی اخراجات ہوتے ہیں۔

انہوں نے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ پر بھی سخت تنقید کی جس کا آخری نوٹی فکیشن 2010 میں اسلام آباد اور صوبوں کے درمیان قومی فنڈز کی تقسیم کے لیے جاری کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ آخری این ایف سی ایوارڈ نے قابل تقسیم پول میں صوبوں کا حصہ 47.5 فیصد سے بڑھا کر 57.5 فیصد کر دیا جب کہ وفاقی حکومت کے حصہ 10 فیصد کم کر کے 42.5 فیصد کر دیا، انہوں نے اسے ایک ایسا انتظام قرار دیا جو صوبوں کو مفت رقم فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے ٹمپریری اکنامک ری فنانس فیسیلٹی پروگرام پر بھی تنقید کی، یہ پروگرام کووڈ 19 کے دور میں شروع کیا گیا جس کا مقصد بنیادی طور پر مشینری کی درآمدات کے لیے 3 ارب ڈالر کے سبسڈائزڈ قرضے جاری کرنا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں