نگران وزیراعلیٰ سندھ کیلئے مراد علی شاہ، رعنا انصار کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور بےنتیجہ

اپ ڈیٹ 13 اگست 2023
مراد علی شاہ نے امید ظاہر کی کہ نگران وزیراعظم کا تقرر اتفاق رائے سے کرلیا جائے گا — فوٹو: سی ایم ہاؤس سندھ
مراد علی شاہ نے امید ظاہر کی کہ نگران وزیراعظم کا تقرر اتفاق رائے سے کرلیا جائے گا — فوٹو: سی ایم ہاؤس سندھ

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور تحلیل شدہ سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف رعنا انصار کے درمیان گزشتہ روز صوبے کے نگران وزیر اعلیٰ کی نامزدگی پر اتفاق رائے کے لیے مشاورت کا پہلا دور ہوا، تاہم ملاقات کے دوران دونوں جانب سے کوئی نام تجویز نہ کیے جانے کے سبب کوئی اہم پیش رفت نہ ہوسکی۔

تاہم ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس میں مراد علی شاہ نے امید ظاہر کی کہ نگران وزیر اعظم کا تقرر اتفاق رائے سے کرلیا جائے گا۔

پریس کانفرنس کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ نے گزشتہ 5 برسوں کے دوران صوبے میں اپنی حکومت کی کارکردگی پر بھی روشنی ڈالی۔

ایک علیحدہ میڈیا ٹاک میں رعنا انصار نے مراد علی شاہ سے ملاقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی جانب سے کوئی نام تجویز نہیں کیے اور میں نے بھی کوئی نہیں بتائے۔

یاد رہے کہ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی رعنا انصار 26 جولائی کو سندھ اسمبلی میں پہلی خاتون اپوزیشن لیڈر بنی تھیں۔

دوسری جانب ایم کیو ایم (پاکستان) کے ڈپٹی کنوینر مصطفیٰ کمال نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے اپوزیشن لیڈر سے ملاقات کے دوران کہا کہ وہ اپنی پارٹی قیادت سے مشاورت کے بعد نگران وزیر اعظم کے لیے نام تجویز کریں گے، اس لیے پیپلز پارٹی کی جانب سے نام دیے جانے کے بعد ہی ہم اپنے نام دیں گے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے پریس کانفرنس کے دوران نگران وزیراعلیٰ کے تقرر کے حوالے سے میڈیا میں گردش کرنے والی قیاس آرائیوں کو بھی یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کئی ناموں کے حوالے سے قیاس آرائیاں کرتا ہے اور جب کسی ایک کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ’سب سے پہلے ہم نے خبر دی‘۔

واضح رہے کہ میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) دونوں نے نگران وزیراعظم کے لیے 3، 3 نام طے کیے ہیں۔

طریقہ کار کیا ہے؟

آئین کے مطابق عہدے سے سبکدوش ہونے والے وزیر اعلیٰ کو نگراں وزیر اعلیٰ کے لیے 3 نام دینے ہوتے ہیں اور اسمبلی تحلیل ہونے کے 48 گھنٹوں کے اندر اپوزیشن لیڈر سے تجاویز طلب کرنی ہوتی ہیں۔

اتفاق رائے پیدا نہ ہونے کی صورت میں تحلیل شدہ صوبائی اسمبلی کے اسپیکر 6 اراکین صوبائی اسمبلی پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دیں گے جس میں حکومت اور اپوزیشن کی یکساں نمائندگی ہوگی۔

وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر 2، 2 نام کمیٹی کو بھیجیں گے، جس کے پاس کسی ایک نام پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے 3 روز ہوں گے، اگر کمیٹی بھی ناکام ہوجاتی ہے، تو نامزد امیدواروں کے نام 2 روز کے اندر حتمی فیصلے کے لیے الیکشن کمیشن کو بھیجے جائیں گے۔

پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان جاری تناؤ کے پیش نظر سیاسی حلقے اس امکان کو مسترد نہیں کر رہے کہ یہ معاملہ بالآخر الیکشن کمیشن کے پاس ہی چلا جائے گا، تاہم سندھ کے سابق ایڈووکیٹ جنرل بیرسٹر ضمیر گھمرو کو امید ہے کہ دونوں فریق اس معاملے پر کسی اتفاق رائے تک پہنچ جائیں گے۔

امیدوار کون کون ہو سکتے ہیں؟

اسمبلی کی تحلیل کے بعد سے نگران وزیر اعلیٰ سندھ کے لیے مختلف نام سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بن گئے ہیں۔

پیپلزپارٹی کا جھکاؤ حال ہی میں عہدے سے سبکدوش ہونے والے چیف سیکریٹری سید ممتاز شاہ، سپریم کورٹ کے سابق جج مقبول باقر اور خیرپور سے تعلق رکھنے والے بلڈر و سرمایہ کار مبین جمانی کی جانب بتایا جارہا ہے۔

ایم کیو ایم (پاکستان) کے ممکنہ انتخاب شعیب صدیقی اور یونس ڈھاگا ہوسکتے ہیں جو کہ دونوں سابق وفاقی سیکریٹریز ہیں، تاہم پیش رفت سے قبل اسے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کا مؤقف بھی جاننا ہوگا۔

جی ڈی اے جن ناموں پر غور کر رہی ہے ان میں ڈاکٹر صفدر عباسی، غلام مرتضیٰ جتوئی، فضل اللہ قریشی، مختیار احمد اور اقوام متحدہ کے سابق مندوب حسین ہارون شامل ہیں۔

پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم (پاکستان) 15 جنوری کے بلدیاتی انتخابات کے بعد سے ہی ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں جس کا بائیکاٹ کر کے ایم کیو ایم نے پیپلزپارٹی کے لیے کراچی اور حیدر آباد کے میئر کی نشستیں حاصل کرنے کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا تھا۔

حال ہی میں ایسا لگتا ہے کہ جی ڈی اے نے قائد حزب اختلاف کے عہدے پر ایم کیو ایم (پاکستان) کے ساتھ کچھ سمجھوتہ کر لیا ہے، دوسری جانب جے یو آئی (ف) ہے، جو ماضی میں علیحدہ صوبے کے مطالبے پر ایم کیو ایم پر تنقید کرتی رہی ہے، اب حیرت انگیز طور پر پیپلزپارٹی مخالف ممکنہ اتحاد کی تشکیل کے لیے ایم کیو ایم کے نزدیک آچکی ہے۔

ماضی میں یہ اتحاد بڑے زوردار طریقے سے سامنے آیا تھا، تاہم 2013 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی سے ہارنے کے بعد سے یہ اتحاد بکھر گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں