اسلام آباد: عمران خان کی مختلف مقدمات میں ضمانت کی 9 درخواستیں مسترد

توشہ خانہ کیس میں سزا اور زیرحراست ہونے کے سبب عمران خان سماعت کے دوران غیر حاضر تھے—فائل فوٹو: اے ایف پی
توشہ خانہ کیس میں سزا اور زیرحراست ہونے کے سبب عمران خان سماعت کے دوران غیر حاضر تھے—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد کی مقامی عدالتوں نے پرتشدد مظاہروں پر سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے خلاف درج ایف آئی آرز میں ضمانت کی 9 درخواستیں مسترد کر دیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے ضمانت کی 3 درخواستیں خارج کر دیں جبکہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (اے ڈی ایس جے) محمد سہیل نے عمران خان کی قبل از گرفتاری ضمانت کی 6 درخواستیں مسترد کر دیں، توشہ خانہ کیس میں سزا سنائے جانے اور حراست میں لیے جانے کے سبب وہ گزشتہ روز سماعت کے دوران غیر حاضر تھے۔

تاہم ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (اے ڈی ایس جے) محمد سہیل نے توشہ خانہ تحائف کی جعلی رسید سے متعلق کیس میں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عبوری ضمانت میں 7 ستمبر تک توسیع کردی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے ان کے خلاف تھانہ کھنہ اور بارہ کہو تھانے میں درج مقدمات میں انسداد دہشتگردی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین سے ضمانت کی درخواست کی گئی تھی۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے پی ٹی آئی چیئرمین کے خلاف کراچی کمپنی، رمنا، کوہسار، ترنول اور سیکرٹریٹ تھانوں میں درج ایف آئی آرز میں ضمانت کی درخواستوں کی سماعت کی۔

استغاثہ نے مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ عمران خان جیل میں ہیں اس لیے وہ ضمانت قبل از گرفتاری کے حقدار نہیں ہیں، تفتیشی افسران نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان اپنے خلاف درج مقدمات میں شامل تفتیش نہیں ہوئے۔

عدالت میں پی ٹی آئی چیئرمین کی نمائندگی بیرسٹر سلمان صفدر نے کی، انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم کو ان کے خلاف درج تمام 6 ایف آئی آرز میں ایک جیسے الزامات کا سامنا ہے، پولیس ان معاملات میں عمران خان کی تحقیقات کے لیے اقدامات نہیں کر رہی۔

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ بشریٰ بی بی شامل تفتیش نہیں ہوئیں، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (اے ڈی ایس جے) محمد سہیل نے بشریٰ بی بی کی عبوری ضمانت میں توسیع کرتے ہوئے انہیں تفتیشی ٹیم کے ساتھ تعاون کرنے کی ہدایت دی۔

بشریٰ بی بی کی عمران خان سے جیل میں ملاقات

دریں اثنا بشریٰ بی بی نے اٹک جیل میں اپنے شوہر عمران خان سے ملاقات کی، تاہم عمران خان کی لیگل ٹیم کو عمران خان سے ملاقات سے ایک بار پھر انکار کر دیا گیا۔

بشریٰ بی بی، عمران خان کے وکلا کی ٹیم کے ہمراہ اُن سے ملاقات کے لیے اٹک جیل پہنچی تھیں، مبینہ طور پر پولیس نے انہیں کچھ دیر کے لیے ملاقات سے روک دیا تھا۔

بعد ازاں جیل حکام کی جانب سے منظوری کے بعد صرف بشریٰ بی بی کو پولیس جیل کے احاطے میں عمران خان سے ملاقات کے لیے لے گئی، تاہم چیئرمین پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کو سابق وزیراعظم سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔

ذرائع کے مطابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کے کمرے میں بشریٰ بی بی اور عمران خان کے درمیان ایک گھنٹے سے زیادہ طویل بالمشافہ ملاقات ہوئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کی قانونی ٹیم کو پولیس نے پی ٹی آئی چیئرمین سے ملاقات کی اجازت نہیں دی حالانکہ پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم نے انہیں عدالتی احکامات دکھائے جس کے تحت انہیں پی ٹی آئی رہنما سے ملاقات کی اجازت دی گئی تھی۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ بشریٰ بی بی سے عمران خان کی ملاقات کے دوران وکلا جیل کے باہر ہی رہے، ملاقات کے بعد بشریٰ بی بی لاہور روانہ ہوگئیں۔

شاہ محمود قریشی کی ضمانت میں توسیع

دوسری جانب انسداد دہشتگردی عدالت کے جج ذوالقرنین نے وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی کی تشدد پر اکسانے کے مقدمے میں ضمانت میں توسیع کرتے ہوئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے دونوں ارکان کو کیس کے ریکارڈ سمیت طلب کرلیا اور کیس کی مزید سماعت یکم ستمبر تک ملتوی کر دی۔

عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا کہ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نہ تو مسلم لیگ ن اور نہ ہی پیپلز پارٹی کا انتخاب ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ دونوں جماعتوں نے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کے نام پر اتفاق کیا تھا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پی ٹی آئی کو نگراں وزیراعظم سے غیر جانبدار کابینہ کی توقع ہے، امید ہے کہ وہ ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات یقینی بنائیں گے۔

انہوں نے پی ٹی آئی کی تمام زیر حراست خواتین کارکنان کی فوری رہائی اور عمران خان کو حاصل جائز حق کے مطابق جیل میں تمام سہولیات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا، ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان تک ان کی لیگل ٹیم کو رسائی کی اجازت نہ دی گئی تو یہ سراسر ناانصافی ہوگی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں