چترال کی وادی لاسپور کے رہائشی ہائیڈرو پاور سے کیسے فائدہ اٹھارہے ہیں؟

31 اگست 2023
آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے تعاون سے تعمیر ہونے والا 500 کلو واٹ کا ہائیڈرو پاور سٹیشن لاسپور وادی کو بجلی فراہم کرتا ہے—تصویر: لکھاری
آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے تعاون سے تعمیر ہونے والا 500 کلو واٹ کا ہائیڈرو پاور سٹیشن لاسپور وادی کو بجلی فراہم کرتا ہے—تصویر: لکھاری

یہ اتوار کو دوپہر ہونے سے قبل کا وقت ہے اور گل بی بی ہمارے لیے چائے بنا رہی ہیں۔ بجلی سے چلنے والی کیتلی میں چائے کی پتی ڈالتے ہوئے وہ بتاتی ہیں کہ ایک وقت تھا کھانا بنانے کے لیے انہیں کافی محنت کرنی پڑتی ہے جبکہ ان کا خرچہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے چترال کی اس دور افتادہ وادی لاسپور میں واقع اپنے گھر کی دیواروں پر پڑے دھویں کے نشانات اور اس دھویں کے صحت پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے کوئی گفتگو نہیں کی۔

انہوں نے کیتلی بند کی اور اپنے کچن کے کونے پر لگے پری پیڈ میٹر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت مجھے 5 کپ چائے بنانے کی قیمت صرف 2 روپے پڑ رہی ہے‘۔

چائے پیتے ہوئے انہوں نے ہمیں بتایا کہ چائے، گوشت، چکن، سبزیاں اور روٹی بناتے ہوئے ان کا کتنا خرچہ ہوتا ہے۔ ان کی طرح ان کے گاؤں رامان کے اوسطاً تمام گھرانے لکڑی کا چولہا جلانے کے لیے ہر مہینے ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں۔ محنت اور مشقت سے کمانے والے ان گھرانوں کے لیے کھانا پکانے پر ہونے والے اضافی اخراجات بہت بڑا نقصان ہیں۔ اور یہ صرف پکانے اور حرارت کی لاگت ہے۔ وادی کی اندھیری راتوں میں اپنے مکانات روشن کرنے کے لیے ان گھرانوں کو مٹی کے تیل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

کچھ عرصے قبل تک وادی کے دیگر دیہات کی طرح رامان کے رہائشیوں کو بھی بجلی تک رسائی حاصل نہیں تھی۔

یہ سب اس وقت بدل گیا جب ایندھن کی اور اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث رہائشیوں نے اس حوالے سے کچھ کرنے کا فیصلہ کیا۔ گلگت بلتستان اور چترال میں کام کرنے والی سب سے بڑی غیر سرکاری ترقیاتی تنظیم آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے تعاون سے رامان میں لوگوں نے 500 کلو واٹ پیداواری صلاحیت کا حامل ایک ہائیڈرو پاور اسٹیشن قائم کیا ہے۔

صاف ستھرے کمرے میں اپنے شیر خوار بچے کو گود میں لیے گُل بی بی جوش و خروش سے مجھے ان فوائد کے حوالے سے بتاتی ہیں جو ان کے گھر کو بجلی کی بلاتعطل فراہمی سے حاصل ہوئے ہیں۔ اس نے پچھلے 6 برس میں اس کی زندگی کو کافی آسان اور آرام دہ بنادیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’موسمِ سرما کے دوران بجلی پر تقریباً 2 ہزار 500 روپے کے اخراجات آتے ہیں جبکہ موسمِ گرما میں یہ خرچہ آدھا ہوجاتا ہے۔ ہم لکڑی کے چولہوں پرماہانہ اس سے 4 گنا زیادہ یعنی 10 ہزار روپے تک خرچ کرتے تھے‘۔

ان کے شوہر موسمِ سرما کے دوران کراچی میں مزدوری کرتے ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں روزانہ کی بنیاد پر لکڑی کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو توڑنا بھی گُل بی بی کے لیے ایک مشکل کام تھا۔

وہ یاد کرتی ہیں کہ لکڑی کا چولہا جلانے سے پیدا ہونے والے دھویں سے گھر کی دیواریں اور اندر موجود تمام سامان کالا ہوچکا تھا اور اس کی وجہ سے انہیں سردیوں میں دمہ بھی ہوچکا ہے۔ گُل بی بی کے لیے الیکٹرک گیزر کسی ’نعمت‘ سے کم نہیں جو انہیں سخت سردی میں گرم پانی مہیا کرتا تھا۔

لاسپور کی وادی ضلع چترال بالا (خیبر پختون خوا) سے ملحقہ شندور پاس کے ذریعے گلگت بلتستان کے غذر ضلع سے ملتی ہے۔ یہ وادی نیشنل گرڈ سے بہت دور ہے لیکن یہاں پانی سے بجلی بنانے کے بہت زیادہ امکانات موجود ہیں۔

مقامی لوگوں نے مل کر اس علاقے میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیتوں کو استعمال کرنے میں پہل کی اور دیگر دیہاتوں کے لیے ایک مثال قائم کی۔ اس گاؤں میں تعمیر ہونے والا ہائیڈرو پاور پروجیکٹ ہرچن، گاشت اور بالم سمیت قریبی 8 دیہاتوں کے ایک ہزار 50 گھرانوں کو بجلی فراہم کرتا ہے۔

کمیونٹی نے ایک ڈسٹری بیوشن کمپنی بھی قائم کی ہے جس کا نام مشہور علاقے شندور کے نام پر پر شندور یوٹیلیٹی کمپنی رکھا گیا۔ اسے ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کا انتظام سونپا گیا ہے اور اس کے عہدیداروں کو وقتاً فوقتاً اور جمہوری طریقے سے تبدیل کیا جاتا ہے۔ پروجیکٹ کی پائیداری کا عنصر اس کا انتظام ہے جو مرمت اور دیکھ بھال کے لیے کمپنی کو ہونے والی بچت کو بروقت مہیا کرتا ہے۔

اب گاؤں میں برقی چولہے اور دیگر آلات استعمال کیے جاتے ہیں—تصویر: لکھاری
اب گاؤں میں برقی چولہے اور دیگر آلات استعمال کیے جاتے ہیں—تصویر: لکھاری

کمپنی کے منیجر شرف الدین کہتے ہیں کہ ضرورت پڑنے پر مقامی لوگ اپنی جیب سے مطلوبہ رقم فراہم کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ جنریٹرز، ٹربائنز یا ٹرانسفارمرز کی تبدیلی کے لیے بھی ضرورت پڑنے پر وہ رقم مہیا کرتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ کمپنی ایک سوشل انٹرپرائز کے طور پر کام کررہی ہے جہاں بچت کو علاقے میں ترقیاتی کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

علاقے کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی وجہ سے علاقے میں لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری آئی ہے۔ سستی توانائی ان کی زندگیوں میں سکون اور آسانی لے کر آئی ہے۔ برقی آلات کا استعمال اب وادی میں عام ہوچکا ہے جن کے ذریعے وہ کھانا بھی بناتے ہیں اور کھانا محفوظ بھی رکھتے ہیں۔

وادی میں موجود تقریباً تمام جنرل اسٹورز میں کچن میں استعمال ہونے والے برقی آلات فروخت کیے جارہے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ علاقے میں ان کے استعمال میں اضافہ ہورہا ہے۔ وہاں موجود پنجاب سے تعلق رکھنے والے کچھ سیاح حیران تھے کہ ملک کے قدیم اور پسماندہ علاقے میں بھی کچن میں استعمال ہونے والے بجلی کے آلات کا استعمال زیادہ دیکھا گیا۔

ایک سیاح رشید بٹ پہلے بھی چترال کا دورہ کرچکے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ وادی میں سڑک کنارے موجود ڈھابوں میں پہلے لکڑیوں، قدرتی گیس اور مٹی کے تیل کا استعمال ہوتا تھا جس کی جگہ اب بجلی سے چلنے والے آلات نے لے لی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے یہاں پہلی بار بجلی سے چلنے والے فرائنگ پین پر آملیٹ بنتے ہوئے دیکھا‘۔

جب موسمِ سرما (تقریباً 5 ماہ) میں جب گاؤں کا درجہ حرارت نقطہِ انجماد سے گر جاتا ہے تو یہاں ایک گھر کھانا پکانے اور حرارت کے لیے تقریباً 4 ہزار کلو لکڑیاں استعمال کرتا تھا۔ شندور یوٹیلیٹی کمپنی کے چیئرمین سہروردی خان دعویٰ کرتے ہیں کہ سستی توانائی سے گرمائش اور کھانا پکانے کے اخراجات میں 80 فیصد کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے لکڑی کا استعمال تقریباً ختم ہی ہوگیا ہے۔ نتیجتاً ایندھن کے لیے درختوں کی کٹائی میں بھی واضح کمی دیکھی گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’لکڑیوں کی خریداری پر بچنے والی رقم اب گاؤں کے رہائشی اپنے معیارِ زندگی اور تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ گھروں میں ماحول دوست توانائی کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ ہی دمے، پھیپھڑوں کے انفیکشن، سانس لینے میں دشواری اور دیگر امراض میں کمی واقع ہوئی ہے جوکہ اس سے قبل لکڑیوں کے دھویں کی وجہ سے عام تھے۔

سہروردی خان کہتے ہیں کہ دیہات اور قریبی علاقوں میں جھاڑیوں اور پہاڑیوں پر درختوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یوں جنگلی حیات کی آبادی میں بھی اضافہ ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ماحول دوست توانائی کا استعمال ماحولیات میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ سیلاب کے آنے اور مٹی کی تہوں کو ختم ہونے سے روکے گا۔

اس سے قبل یہاں کے طلبہ مٹی کے تیل سے جلنے والی لالٹین کی روشنی میں پڑھائی کرتے تھے، وہ بھی اب اس ماحول دوست توانائی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہونا ان کے لیے ایک بونس ہے۔

گاؤں ہرچن کے رہائشی اور پشاور یونیورسٹی کے طالب علم صالح یفتالی کا کہنا ہے کہ اب وہ اپنی دو ماہ کی گرمیوں کی چھٹیاں گاؤں میں گزارتے ہیں کیونکہ یہاں بجلی اور انٹرنیٹ کی سہولتیں دستیاب ہیں۔ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان کے دو بڑے بھائی یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے گرمیوں کی چھٹیوں میں مشکل سے دو ہفتے ہی گاؤں میں گزارتے تھے کیونکہ اس وقت گاؤں میں بجلی نہیں ہوا کرتی تھی۔

مقامی لوگوں کے زیرِ انتظام ماحول دوست توانائی کے استعمال نے نہ صرف رامان اور اس کے قریبی دیہات کے رہائشیوں کے معیار زندگی کو یکسر تبدیل کردیا ہے بلکہ اس سے آنے والی نسلوں کو بھی بہتر ماحول بھی میسر ہوگا۔


یہ مضمون 30 جولائی 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں