الیکشن کمیشن کا عام انتخابات میں تاخیر کا دفاع، ’نئی حلقہ بندیاں آئینی تقاضا ہے‘

اپ ڈیٹ 19 اگست 2023
الیکشن کمینش کا کہنا ہے کہ حلقہ بندیاں انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک آئینی ضرورت ہے—فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
الیکشن کمینش کا کہنا ہے کہ حلقہ بندیاں انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک آئینی ضرورت ہے—فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے شیڈول کے اعلان کے بعد انتخابات کے انعقاد میں 90 روز سے زائد تاخیر یقینی ہونے پر اپنے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ حلقہ بندیاں انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک آئینی ضرورت ہے، نئی حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کیے بغیر ووٹرز کو پارلیمنٹ میں حقیقی نمائندگی حاصل نہیں ہوگی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کو توقع ہے کہ ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے آئینی طور پر دی گئی آخری تاریخ سے ایک ماہ بعد، یعنی 14 دسمبر تک قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں کی نئی حلقہ بندی کا عمل مکمل ہو جائے گا۔

الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ 2023 میں تازہ مردم شماری کے باضابطہ طور پر نوٹیفائی ہونے والے نتائج کی بنیاد پر آئندہ عام انتخابات سے قبل نئی حلقہ بندی کرنا قانون کا لازمی تقاضا ہے۔

مردم شماری کے نتائج باضابطہ طور پر نوٹیفائی ہونے کے بعد حلقہ بندی سے متعلق سوال پر الیکنش کمیشن کی جانب سے جاری تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 218(3) کے تحت فرائض کی تکمیل کو یقینی بنانے اور آئین کے آرٹیکل 17(2) کے مطابق ووٹروں، سیاسی جماعتوں اور انتخابی امیدواروں کی حقیقی نمائندگی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے نئی حلقہ بندی ضروری ہے تاکہ ایمانداری کے ساتھ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات یقینی بنائے جاسکیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری حکم نامے کی دستیاب کاپی کے مطابق الیکشنز ایکٹ 2017 کا سیکشن 17(2) یہ کہتا کہ الیکشن کمیشن باضابطہ طور پر نوٹیفائی ہونے والی ہر مردم شماری کے بعد حلقہ بندی کروانے کا پابند ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل نئی حلقہ بندی کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 17، 218 (3)، 219، 222 (بی)، 224(2)، 254 اور الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 17 (2) کی دفعات کے علاوہ سپریم کورٹ کے فیصلے بشمول فیڈریشن آف پاکستان بمقابلہ حاجی محمد سیف اللہ خان کیس (جوکہ پی ایل ڈی-1989، ایس سی-166 میں رپورٹ کیا گیا) پر غور کیا۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 218(3) میں مذکور انتظامات صرف ڈی آر اوز، آر اوز، اے آر اوز کے تقرر، بیلٹ پیپرز کی چھپائی تک محدود نہیں بلکہ اس میں آرٹیکل 2I9 (اے) کے مطابق اپ ڈیٹ شدہ انتخابی فہرستوں کی تیاری اور حلقہ بندی بھی شامل ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ باضابطہ طور پر نوٹیفائی ہونے والی مردم شماری کے نتیجے میں صوبوں اور ضلعی سطح پر انتخابی حلقوں کی آبادی میں خاطر خواہ تبدیلیاں آئی ہیں۔

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 219 کی شق (اے) الیکشن کمیشن پر یہ فرض عائد کرتی ہے کہ وہ قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور مقامی حکومتوں کے انتخابات کے لیے انتخابی فہرستیں تیار کرے اور ان فہرستوں کو اپ ٹو ڈیٹ رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً اس پر نظر ثانی کرے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ساتویں مردم شماری کے نتائج نوٹیفائی ہونے کے بعد تقریباً 20 ہزار 805 مردم شماری بلاکس میں اضافہ ہوا ہے، کچھ کو ضم کر دیا گیا ہے جبکہ دیگر تقسیم ہو گئے ہیں، جس کے لیے رجسٹرڈ ووٹرز کو 2023 کی مردم شماری کے مطابق حلقوں، بلاکس اور چارجز کے تحت ایڈجسٹ کرنے کے لیے انتخابی فہرستوں کی نظرثانی/اپ ڈیٹ کرنا ضروری ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ رٍائے دہندگان کو حقیقی نمائندگی کی فراہمی آرٹیکل 218(3) اور پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد کے لحاظ سے الیکشن کمیشن کے آئینی فرائض میں سے ایک ہے، علاوہ ازیں یہ آئین کے آرٹیکل 7 (2) کے مطابق انتخاب لڑنے والے امیدواروں، سیاسی جماعتوں اور ووٹر کا بنیادی حق ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ بینظیر بھٹو بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان اور چوہدری ناصر اقبال بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان کے مقدمات میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ ووٹ کا حق، الیکشن لڑنے کا حق اور سیاسی جماعت بنانے کا حق آئین کے تحت دیے گئے بنیادی حقوق ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے حکم نامے میں کہا گیا کہ نئی حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کیے بغیر حلقوں کے ووٹر، انتخاب لڑنے والے امیدواروں اور سیاسی جماعتوں میں سے کسی کو بھی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں حقیقی نمائندگی حاصل نہیں ہوگی جو کہ آئین کے مطابق جمہوریت کا بنیادی اصول ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آئین کی بامعنی تشریح کرنے کے لیے آئین کی مختلف شقوں کو ایک ساتھ پڑھنا اور انہیں ہم آہنگ کرنا ضروری ہے، اس میں ہر مردم شماری کے باضابطہ طور پر نوٹیفائی ہونے کے بعد حلقہ بندی اور غلطیوں سے پاک اپ ڈیٹ شدہ انتخابی فہرستوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں