بجلی کے بلوں میں ریلیف فراہم کرنے کیلئے کوشاں حکومت ’پیٹرول بم‘ گرانے کو تیار

اپ ڈیٹ 29 اگست 2023
حکام نے واضح کیا کہ ٹیرف میں کمی کی کوئی باقاعدہ تجویز فی الحال زیرِغور نہیں ہے — فائل فوٹو: پی آئی ڈی
حکام نے واضح کیا کہ ٹیرف میں کمی کی کوئی باقاعدہ تجویز فی الحال زیرِغور نہیں ہے — فائل فوٹو: پی آئی ڈی

بجلی کے زائد بلوں کے خلاف ملک گیر احتجاج کے پیش نظر نگران حکومت حل تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہے، تاہم رواں ہفتے کے آخر میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے کی صورت میں عوام کی ریلیف کی امیدوں کو ایک اور دھچکا لگنے کا خدشہ ہے، جو تمام پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو 300 روپے فی لیٹر سے اوپر پہنچا سکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ خدشہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب نگران سیٹ اپ مسلسل تیسرے روز بھی عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے طریقے تلاش کرنے کے لیے اجلاس جاری رکھے ہوئے ہے، تاہم تاحال کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔

31 اگست کو پیٹرول کی قیمت میں 9 سے 10 روپے فی لیٹر اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 18 سے 20 روپے فی لیٹر اضافے کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے جبکہ مٹی کا تیل تقریباً 13 روپے فی لیٹر مہنگا ہونے کا خدشہ ہے، اس اضافے کی بنیاد موجودہ ٹیکس کی شرح اور درآمدی برابری کی قیمت ہے جس کی وجہ بنیادی طور پر روپے کی قدر میں کمی اور تیل کی عالمی قیمتوں میں معمولی اضافہ ہے۔

متعلقہ حکام کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے پتا چلتا ہے کہ حکومت کے پاس عوام کو بجلی کی قیمتوں میں مستقل ریلیف فراہم کرنے کے لیے کوئی حل دستیاب نہیں، سوائے اس کے کہ بل چند ماہ کی اقساط کی صورت میں ادا کیے جائیں یا موجودہ 2 ماہ کے بلوں کی وصولیاں سردیوں کے مہینوں میں کی جائیں جب بجلی کے عام استعمال میں کمی آجاتی ہے، یہ دونوں آپشنز ریونیو نیوٹرل ہیں، تاہم یہ پاور کمپنیوں کے لیے چند ماہ تک کیش فلو کے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔

درحقیقت حکومت کی جانب سے پہلے ہی پاور ریگولیٹر سے درخواست کی جاچکی ہے کہ وہ 3 ماہ کے بجائے اکتوبر سے شروع سردیوں کے 6 ماہ میں مزید 5.40 روپے فی یونٹ سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ وصول کرے۔

قیمتوں میں حالیہ اضافے کی سب سے بڑی وجہ روپے کی قدر میں کمی ہے، جو تقریباً 70 فیصد بنتی ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کے سبب حکومت کے پاس اس وقت اسے کنٹرول کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

علاوہ ازیں 10 سے 12 فیصد کا ایک اور اضافہ شرح سود کی وجہ سے ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے نہ صرف حکومت اور اسٹیٹ بینک کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں بلکہ مانیٹری پالیسی کو مزید سخت کرنے کا دباؤ بھی موجود ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بالکل وہی تجاویز ہیں جو پاور ڈویژن کی جانب سے وزیراعظم آفس کو پیش کی گئیں اور اس میں چند دیگر تجاویز بھی ہیں جن میں مالیاتی اثرات شامل ہیں جنہیں صرف آئی ایم ایف پروگرام کو بالائے طاق رکھ کر ہی لاگو کیا جاسکتا ہے اور اس لیے وزارت خزانہ کی جانب سے ان کی حمایت نہیں کی گئی۔

درحقیقت توانائی کی بھاری لاگت کا براہ راست فائدہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ہے کیونکہ قیمتوں میں اضافے کے ساتھ اس کا 18 فیصد حصہ خود بخود بڑھ جاتا ہے، 92 کھرب روپے سے زائد کا ٹیکس ہدف براہ راست مہنگائی کی بلند شرح پر منحصر ہے۔

نگراں حکومت کے پاس واحد آپشن رہ گیا ہے کہ وہ ٹیلی ویژن اور ریڈیو ٹیکس کو معطل کر دے لیکن اس کا اثر انتہائی معمولی ہوگا لہٰذا اس میں کسی تبدیلی پر غور نہیں کیا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ حکومت جاری ایس بی اے (اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ) کے تحت پابند ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو وصولیوں اور گردشی قرضوں کی تبدیلیوں سے متعلق مقررہ اہداف کے مطابق کارکردگی کے سہ ماہی اعداد و شمار ہر سہ ماہی مکمل ہونے کے 30 دن بعد فراہم کرے۔

لہٰذا حکومت 30 ستمبر کو پہلی سہ ماہی کی تکمیل پر کسی بھی قسم کی لغزش کی متحمل نہیں ہوسکتی جس کا آئی ایم ایف کا عملہ اکتوبر کے آخر یا نومبر کے آغاز تک 71 کروڑ ڈالر کی دوسری قسط کے اجرا کے لیے براہ راست جائزہ لے گا۔

بنیادی طور پر ان چیلنجز کی وجہ سے گزشتہ روز وزیر اعظم آفس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ آج متوقع وفاقی کابینہ کے اجلاس میں باضابطہ بحث سے قبل ’ون-سلیب‘ کے فوائد اور ٹیکسوں میں ریلیف سے متعلق تجاویز وزارت خزانہ کو بھجوائی جائیں، تاہم حکام نے واضح کیا کہ ٹیرف میں کمی کی کوئی باقاعدہ تجویز فی الحال زیرِ غور نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں