ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئین شپ کے بعد ارشد ندیم کی دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ تصویر بنوانے کی ایک ویڈیو وائرل ہورہی تھی جس میں سوشل میڈیا صارفین پاکستانی پرچم نہ ہونے کا شکوہ کررہے تھے، تاہم اب ارشد نے اس کی وضاحت کردی ہے۔

28 اگست کو ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ میں ہونے والی ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئین شپ میں جیولن تھرو کے فائنل مقابلے میں پاکستان کے ارشد ندیم اور بھارت کے نیرج چوپڑا کے درمیان مقابلہ ہوا تھا۔

میاں چنوں سے تعلق رکھنے 26 سالہ ارشد ندیم نے 87.82 میٹر کی تھرو کی تھی جس کے بعد وہ چھٹی پوزیشن سے دوسری پوزیشن پر آگئے تھے، اور وہ چاندی کا تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

یہ پہلا موقع تھا کہ کسی پاکستانی ایتھلیٹ نے ان عالمی مقابلوں کی تاریخ میں کوئی بھی تمغہ جیتا ہو۔

دوسری جانب نیرج چوپڑا 88.17 میٹر کی تھرو کی بدولت سونے کا تمغہ جیتا تھا۔

چاہے کھیل کوئی سا بھی ہو لیکن اگر مقابلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہے تو دونوں ممالک کے شائقین اس مقابلے کو فائنل میچ سے بھی زیادہ اہم سمجھتے ہیں اور دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی پاکستان اور انڈیا ٹاپ ٹرینڈنگ پر ہوتا ہے۔

جیولن تھرو کے فائنل مقابلے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جب ارشد ندیم طلائی اور کانسی کا تمغہ جیتنے والے ایتھلیٹس کے ساتھ تصویر بنوا رہے ہیں۔

ویڈیو میں دیکھا گیا کہ بھارت کے نیرج چوپڑا اور جمہوریہ چیک کے جیکب وڈلیچ کے پاس اپنے اپنے ملک کا جھنڈا تو ہے لیکن ارشد ندیم کے پاس پاکستانی پرچم موجود نہیں ہے۔

اس پر سوشل میڈیا صارفین نے ارشد ندیم کے ساتھ جانے والی انتظامیہ پر تنقید کی کہ انہیں اس موقع پر پاکستان کا جھنڈا فراہم کرنا چاہیے تھا۔

اس حوالے سے جب برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کے صحافی نے انٹرویو کے دوران جب ارشد ندیم سے سوال پوچھا تو انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’جیسے ہی مقابلہ ختم ہوا تو میں ادھر ہی بیٹھا ہوا تھا، اپنے جوتے اور سامان بیگ میں رکھ رہا تھا، میں نے سوچا کہ یہ ساری چیزیں رکھ کر میں جھنڈا پکڑتا ہوں، جھنڈا بھی موجود تھا، لیکن بس مجھے تھوڑی دیر ہوگئی تھی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’جیسے ہی میں تصویر بنوانے گیا تو اس وقت پاکستانی پرچم کچھ دور تھا، جب میں ان کے پاس پہنچا تو میں نے تصویر کھنچوا لی، لیکن بعدازاں میں نے جھنڈا پکڑ کے پورے گراؤنڈ کا چکر لگایا ہے۔‘

انٹرویو کے دوران ارشد ندیم نے بھارت کے نیرج چوپڑا کے ساتھ دوستی سے متعلق بھی گفتگو کی، انہوں نے بتایا کہ ’نیرج چوپڑا بھائی نے الحمداللہ گولڈ میڈل جیتا ہے تو سمجھ لیں کہ ہم ایشیا میں عالمی سطح پر پہلی اور دوسری پوزیشن پر آئے ہیں، بڑی خوشی ہوئی ہے کبھی وہ گولڈ ہو گیا کبھی میں ہو گیا۔‘

پاکستانی کھلاڑی کا کہنا تھا کہ ’میں نے جب اپنے پہلے بین الاقوامی مقابلے میں حصہ لیا تھا تو وہ بھارت کے شہر گوہاٹی میں ہوا تھا تو اس وقت میں نے کانسی کا تمغہ جیتا تھا اور نیرج نے سونے کا تمغہ جیتا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت سے میری نیرج چوپڑا سے بات چیت ہو رہی ہے اور پھروقت کے ساتھ ساتھ ہماری دوستی بھی بڑھتی گئی، اور اب ہماری اچھی خاصی دوستی ہے۔‘

ارشد نیرج چوپڑا کی والدہ کے بارے میں بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نیرج کی والدہ نے مجھے مبارکباد دی تھی اور کہا تھا کہ میرے بیٹے نے اگر میڈل جیتا ہے تو دوسرا بھی میرا بیٹا ہے، یہی چیزیں انسان کو آگے لے کر آتی ہیں۔‘

ارشد ندیم نے اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی تھی جب 2021 کے ٹوکیو اولمپکس میں وہ جیولین تھرو کے فائنل میں پہنچے تھے اور یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی بن گئے تھے۔

فائنل میں بھی انہوں نے بھرپور مقابلہ کیا تھا لیکن دوسری تھرو میں فاؤل کے سبب میڈل کے حصول میں ناکام رہے تھے اور بھارت کے نیرج چوپڑا نے گولڈ میڈل جیت لیا تھا۔

تاہم پاکستانی اسٹار نے ہمت نہ ہاری اور اپنے عزم و ہمت سے 2022 میں ہونے والے کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کو طلائی تمغہ دلا دیا تھا۔

کامن ویلتھ گیمز میں ارشد نے ریکارڈ ساز انداز میں سونے کا تمغہ جیت کر ٹریک اینڈ فیلڈ میں 56 سال سے میڈل نہ جیتنے کے سلسلے کو ختم کردیا تھا۔

یہ 1966 کے بعد کھیلوں میں پاکستان کا پہلا ایتھلیٹکس کا تمغہ اور ملک کے لیے جیولن میں پہلا طلائی تمغہ ہے، 1954 میں ان کھیلوں کے افتتاحی ایڈیشن میں محمد نواز نے چاندی کا تمغہ جیتا تھا اور 1958 میں جلال خان نے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں