اندرون سندھ میں ڈکیتوں کے خلاف سست کارروائی پر مظاہرین کا اظہارِ مایوسی

اپ ڈیٹ 05 ستمبر 2023
یہ احتجاج کشمور کے ڈیرہ موڑ پر منعقد کیا جارہا ہے — فوٹو: عمیر علی
یہ احتجاج کشمور کے ڈیرہ موڑ پر منعقد کیا جارہا ہے — فوٹو: عمیر علی

تاجروں اور اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے بچوں کے اغوا پر بالائی سندھ کی ہندو برادری کا احتجاج جاری ہے جبکہ مغویوں میں سے 2 کو گزشتہ روز کی شام اغوا کاروں نے رہا کر دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ احتجاج کشمور کے ’ڈیرہ موڑ‘ پر منعقد کیا جا رہا ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔

کشمور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مہر چند نے بتایا کہ 3 ہندوؤں سمیت 5 افراد اغواکاروں کی قید میں ہیں، ان میں ڈاکٹر منیر نائچ، مکھی جگدیش، جے دیپ، ساگر کمار اور مشتاق علی ممدانی شامل ہیں۔

ڈاکٹر مہر چند، جو سندھ میں پیپلزپارٹی کے اقلیتی ونگ کے سینئر نائب صدر ہیں، نے انکشاف کیا کہ 3 لاپتا لڑکیوں (نازیہ، پریا کماری اور کسور کھوسو) کے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں ہے۔

ایس ایس پی امجد شیخ نے کہا کہ پولیس نے مغویوں کے ساتھ پولیس مقابلے کے دوران مکھی جگدیش اور جے دیپ کو بازیاب کرا لیا، پولیس ذرائع نے بتایا کہ دونوں بازیاب افراد کو مزاری ہاؤس لایا گیا ہے۔

تاہم ڈاکٹر مہر چند نے کہا کہ وہ مکھی جگدیش اور جے دیپ سے نہیں ملے اور ان کی صحت یابی کی اطلاعات کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کشمور میں احتجاج گزشتہ روز مسلسل چوتھے دن بھی جاری رہا، کشمور، کندھ کوٹ، بڈانی، کرم پور اور غوث پور میں تاجروں نے اپنے کاروبار اور دکانیں بند رکھیں۔

قوم پرست جماعتوں کی طرح جے یو آئی (ف) کی صوبائی قیادت نے بھی احتجاج کی حمایت کی، تاہم ہندو برادری کے ایک رہنما نے افسوس کا اظہار کیا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مرکزی دھارے میں سے کوئی بھی ان کے احتجاج میں شامل نہیں ہوا۔

اغوا کے واقعات کے خلاف جامشورو ٹاؤن میں بھی اقلیتی برادری نے احتجاجی مظاہرہ کیا، ریلی میں سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے حامیوں نے بھی شرکت کی۔

ڈاکٹر مہر چند نے کہا کہ ہم بالائی سندھ میں تقریباً ہر روز ہونے والی اغوا کی وارداتوں سے تنگ آچکے ہیں، ہر کوئی ہم سے احتجاج ختم کرنے کے لیے کہہ رہا ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ ایس ایس پی امجد شیخ نے چند روز میں مغویوں کی بازیابی کا وعدہ کیا تھا اور ہم اس وعدے کے پورا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر مہر چند نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران تقریباً 40 افراد کو اغوا کیا جا چکا ہے، کچھ افراد کو ڈاکوؤں نے چھوڑ دیا جبکہ دیگر تاوان کی ادائیگی کے بعد گھر پہنچ گئے۔

ایس ایس پی امجد شیخ نے مظاہرین سے صرف 24 گھنٹے سڑک کھولنے کی درخواست کی کیونکہ کئی مسافر پھنسے ہوئے ہیں اور ٹرکوں میں لدی چیزیں موصول کرنے کے لیے دوسرے علاقوں کے لوگ منتظر ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم مغویوں کی جلد از جلد بازیابی کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایس ایس پی نے نشاندہی کی کہ سکھر سے پریا کماری کا کیس 2 سال پرانا ہے، بظاہر یہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ نازیہ کھوسو اور ان کی بیٹی کا معاملہ بھنگوار اور کھوسو برادریوں کے درمیان نجی تنازع سے جڑا ہے اور اسے جلد ہی حل کر لیا جائے گا۔

نگران وزیر داخلہ سندھ حارث نواز نے اتوار کو ٹھٹہ میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ جیکب آباد اور شکارپور کے دریائی علاقے میں آپریشن شروع کرنے کے لیے ایک پلان کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور ہم اسے نتیجہ خیز بنانے کا وعدہ کرتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں