صدر نے عام انتخابات 6 نومبر تک کرانے کی تجویز دیدی، ’الیکشن کمیشن عدلیہ سے رہنمائی لے‘

اپ ڈیٹ 13 ستمبر 2023
صدر مملکت عارف علوی نے اس سے قبل چیف الیکشن کمشنر کو مشاورت کے لیے دعوت دی تھی — فائل /فوٹو: اسکرین شاٹ
صدر مملکت عارف علوی نے اس سے قبل چیف الیکشن کمشنر کو مشاورت کے لیے دعوت دی تھی — فائل /فوٹو: اسکرین شاٹ

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشن کمیشن کو تجویز دی ہے کہ آئین کے مطابق قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر عام انتخابات پیر 6 نومبر تک ہونے چاہئیں، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کے لیے اعلیٰ عدلیہ سے رہنمائی حاصل کی جائے۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو خط میں صدر مملکت نے تجویز دی ہے کہ ملک میں عام انتخابات 6 نومبر تک ہونے چاہئیں۔

ایوان صدر کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چيف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے نام خط میں عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے تجویز دے دی ہے۔

صدر مملکت نے اس سے قبل 23 اگست کو چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ کر عام انتخابات کی تاریخ کے تعین کے لیے مشاورت کی دعوت دی تھی اور اس کے بعد وفاقی وزارت قانون کو بھی اس حوالے سے خط لکھا تھا، تاہم دونوں جانب سے صدر مملکت کو جواب دیا گیا تھا کہ نئی قانون سازی کے مطابق انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔

صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اب انتخابات کی تاریخ تجویز کرتے ہوئے خط میں کہا ہے کہ صدر مملکت نے 9 اگست کو وزیراعظم کے مشورے پر قومی اسمبلی تحلیل کی لہٰذا آئین کے آرٹیکل 48 (5) کے تحت صدر کا اختیار ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے، اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ سے 90 دنوں کے اندر تاریخ مقرر کی جائے۔

صدر مملکت نے کہا کہ آرٹیکل 48 (5) کے مطابق قومی اسمبلی کے لیے عام انتخابات قومی اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ کے 89ویں دن یعنی پیر 6 نومبر 2023 کو ہونے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ آئینی ذمہ داری پوری کرنے کی خاطر چیف الیکشن کمشنر کو ملاقات کے لیے مدعو کیا گیا تاکہ آئین اور اس کے حکم کو لاگو کرنے کا طریقہ وضع کیے جا سکے لیکن چیف الیکشن کمشنر نے جواب میں برعکس مؤقف اختیار کیا کہ آئین کی اسکیم اور فریم ورک کے مطابق یہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔

چیف الیکشن کمیشن کو صدر مملکت نے کہا کہ اگست میں مردم شماری کی اشاعت کے بعد حلقہ بندیوں کا عمل بھی جاری ہے اور آئین کے آرٹیکل 51 (5) اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 17 کے تحت یہ ایک لازمی شرط ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی وزارت قانون و انصاف بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان جیسی رائے کی حامل ہے، چاروں صوبائی حکومتوں کا خیال ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن آف پاکستان کا مینڈیٹ ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ وفاق کو مضبوط بنانے، صوبوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کے فروغ اور غیر ضروری اخراجات سے بچنے کے لیے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات ایک ہی دن کرائے جانے پر متفق ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے آرٹیکل 51، 218، 219، 220 اور الیکشنز ایکٹ 2017 کے تحت طے شدہ تمام آئینی اور قانونی اقدامات کی پابندی کرے۔

خط میں کہا گیا کہ تمام نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن آئین کی متعلقہ دفعات کے تحت صوبائی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت اور پہلے سے زیر سماعت متعدد معاملات کے پیش نظر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کے لیے اعلیٰ عدلیہ سے رہنمائی حاصل کرے۔

صدر مملکت نے اس سے قبل 9 اگست کو قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 23 اگست کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو عام انتخابات کی مناسب تاریخ طے کرنے کے لیے ملاقات کی دعوت دی تھی۔

چیف الیکشن کمشنر کے نام خط میں صدر مملکت نے کہا تھا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 48 کی ذیلی شق 5 کے تحت صدر مملکت تاریخ دینے کا پابند ہے جو قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد عام انتخابات کے لیے 90 روز سے زیادہ نہ ہو۔

صدر مملکت نے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب صدرقومی اسمبلی تحلیل کرتا ہے اور شق ون کا کوئی حوالہ نہیں ہوتا ہے تو وہ قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے تاریخ دے گا جو اسمبلی کی تحلیل کے دن کے بعد 90 روز سے طویل نہ ہو۔

انہوں نے چیف الیکشن کمیشن کو کہا تھا کہ مناسب تاریخ طے کرنے کے لیے چیف الیکشن کمیشن کو صدر مملکت سے آج یا کل ملاقات کی دعوت دی جاتی ہے۔

انتخابات کی تاریخ کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے، سکندر سلطان راجا

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے صدر مملکت کو جوابی خط میں کہا تھا کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں پارلیمنٹ نے ترمیم کی تھی، جس کے تحت الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ جہاں صدر اپنی صوابدید پر قومی اسمبلی کو تحلیل کرتا ہے، تو انہیں عام انتخابات کے لیے تاریخ مقرر کرنی ہوتی ہے، تاہم اسمبلی وزیر اعظم کے مشورے پر یا آئین کے آرٹیکل 58 (1) میں فراہم کردہ وقت کے اضافے سے تحلیل کی جاتی ہے تو الیکشن کمیشن سمجھتا ہے کہ انتخابات کے لیے تاریخ مقرر کرنے کا اختیار خصوصی طور پر اس کے پاس ہے۔

سکندر سلطان راجا کا کہنا تھا کہ کمیشن انتہائی احترام کے ساتھ یقین رکھتا ہے کہ صدر کے خط میں ذکر کردہ آئین کی دفعات پر انحصار اس تناظر میں لاگو نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری کے بعد انتخابی حلقہ بندیاں کرنا انتخابات کے انعقاد کی جانب ’بنیادی قانونی اقدامات‘ میں سے ایک ہے۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کی اپنی ذمہ داری انتہائی سنجیدگی سے لے رہا ہے اور کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے حوالے سے اپنی رائے دینے کی دعوت بھی دی ہے۔

بعدازاں صدر مملکت نے وفاقی وزارت قانون سے اس حوالے سے قانونی مشورہ طلب کیا تھا اور ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت قانون کی جانب سے صدر مملکت کو لکھا گیا خط میڈیا کو جاری نہیں کیا گیا لیکن ایوان صدر کے ذرائع سے تصدیق ہوئی کہ خط عارف علوی کو خط موصول ہو گیا ہے۔

میڈیا کے کچھ اداروں نے خط کے متن کو اپنے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے شیئر کیا، ان رپورٹس میں بتایا گیا کہ الیکشنز ایکٹ میں کی گئی ترامیم کے بعد صدر مملکت کے پاس انتخابات کی تاریخ کا تعین کرنے کا اختیار نہیں رہا۔

الیکشن کمیشن کا نئی حلقہ بندیوں کے تحت شیڈول جاری کرنے کا اعلان

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے حوالے سے سیاسی جماعتوں سے ملاقاتوں کے بعد رواں ماہ کے شروع میں اعلان کیا تھا کہ حلقہ بندیوں کا دورانیہ مختصر کیا جائے گا اور حتمی اشاعت 30 نومبر 2023 تک کردی جائے گی۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی مشاورت، ان کی جانب سے سامنے آنے والی تجاویز و آرا کی روشنی میں حلقہ بندی کےکام کو جلد ازجلد مکمل کرنے کے لیے اس کے دورانیے کو کم کر دیا گیا ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ حلقہ بندی کا دورانیہ کم کرنے کا مقصد جتنا جلدی ممکن ہو سکے الیکشن کا انعقاد ہے، اس تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کے شیڈول کا بھی اعلان کر دیا جائے گا۔

اس سے قبل الیکشن کمیشن نے ملک کی سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، پاکستان مسلم لیگ(ن)، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی)، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، بلوچستان نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، تحریک لبیک پاکستان، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس دیگر سے انتخابات کے حوالے سے تفصیلی مشاورت کی تھی۔

کمیشن نے کہا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے دی گئی تجاویز پر عمل درآمد کی کوشش کی جائے گی اور جن تجاویز پر قانون سازی کی ضرورت ہے وہ پارلیمنٹ بھیج دی جائیں گی۔

تبصرے (0) بند ہیں