اسٹیٹ بینک کا شرح سود 22 فیصد برقرار رکھنے کا اعلان

اپ ڈیٹ 14 ستمبر 2023
اسٹیٹ بینک نے مسلسل دوسری مرتبہ شرح سود 22 فیصد پر برقرار رکھا ہے — فائل/فوٹو: رائٹرز
اسٹیٹ بینک نے مسلسل دوسری مرتبہ شرح سود 22 فیصد پر برقرار رکھا ہے — فائل/فوٹو: رائٹرز

اسٹیٹ بینک نے شرح سود مسلسل دوسری مرتبہ برقرار رکھنے کا اعلان کردیا ہے۔

اسٹیٹ بینک سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے اپنے آج کے اجلاس میں شرح سود تبدیل نہ کرنے اور 22 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ اس فیصلے میں مہنگائی کے تازہ ترین اعدادوشمار پیش نظر رکھے گئے ہیں جن سے مہنگائی کے گرتے ہوئے رجحان کی عکاسی ہوتی ہے، مہنگائی مئی میں 38 فیصد کی بلند ترین سطح سے گر کر اگست میں 27.4 فیصد پر آگئی تھی۔

اسٹیٹ بینک نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں حال ہی میں بڑھی ہیں اور توانائی کی سرکاری قیمتوں میں ردوبدل کے ذریعے صارفین کو منتقل کی جا رہی ہیں, تاہم تخمینے کے مطابق مہنگائی کا رجحان کمی کے طرف گامزن رہے گا اور خصوصاً اس سال کی دوسری ششماہی سے مہنگائی میں کمی ہوگی، اس طرح آئندہ حقیقی شرح سود مثبت دائرے میں برقرار رہے گی۔

بیان میں کہا گیا کہ بہتر زرعی پیداوار، زرمبادلہ اور اجناس کی منڈیوں میں سٹے بازی کی سرگرمیوں کے خلاف حالیہ انتظامی اقدامات کی وجہ سے رسد کی رکاوٹوں میں متوقع کمی سے بھی مہنگائی میں کمی کے رجحان کو تقویت ملے گی۔

مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے بارے میں کہا گیا کہ جولائی میں عقدہ اجلاس کے بعد سے پیش آنے والے چار کلیدی حالات کا تذکرہ کیا گیا، جس میں کپاس کے تازہ ترین اعداد و شمار، خام مال کے بہتر حالات اور دیگر فصلوں کے حوالے سے بہتری کی نشان دہی کرنے والے سیٹلائٹ ڈیٹا کی بنیاد پر زراعت کا منظرنامہ بہتر ہوا ہے۔

اسی طرح عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں بڑھتی جارہی ہیں اور اب 90 ڈالر فی بیرل کی سطح پر پہنچ چکی ہیں، اجلاس میں بتایا گیا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گزشتہ چار ماہ کم رہنے کے بعد جولائی میں خسارے سے دوچار ہوا، جو درآمدی پابندیوں میں حالیہ نرمی کے اثرات کی جزوی عکاسی ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس میں بتایا گیا کہ بنیادی غذائی اجناس کی دستیابی بہتر بنانے اور زرمبادلہ کی مارکیٹ میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کی غرض سے حالیہ انتظامی اقدامات کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔

کمیٹی نے کہا کہ ان اقدامات سے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ایکسچینج ریٹ کے درمیان فرق کم کرنے میں مدد ملی ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے نشان دہی کی کہ وہ مہنگائی کے منظرنامے کو درپیش خطرات کی نگرانی کرتی رہے گی اور اگر ضرورت پڑی تو قیمتیں مستحکم رکھنے کا مقصد حاصل کرنے کے لیے موزوں اقدامات کرے گی۔

اسٹیٹ بینک نے کہا کہ کمیٹی نے مجموعی طلب قابو میں رکھنے کے لیے دیرپا مالیاتی اقدامات برقرار رکھنے پر بھی زور دیا اور کہا کہ مہنگائی پائیدار بنیاد پر نیچے لانے اور مالی سال 2025 کے آخر تک 5 سے 7 فیصد مہنگائی کا وسط مدتی ہدف حاصل کرنے کے لیے یہ قدم ضروری ہے۔

مانیٹری پالیسی کمیٹی نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات، کھاد اور سیمنٹ جیسے اہم خام مال کی فروخت میں معتدل اضافے کے ساتھ درآمدی حجم میں معمولی اضافہ ہوا ہے اور زرعی شعبے میں امکانات بہتر ہو چکے ہیں اور سیلاب سے متعلق خدشات زائل ہوگئے ہیں اور کپاس کی پیداوار گزشتہ برس کے مقابلے میں تقریباً دگنی ہو چکی ہے۔

بیرونی شعبے کے حوالے سے کمیٹی نے کہا کہ جولائی 2023 میں کرنٹ اکاؤنٹ کے توازن میں 80 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کا خسارہ ہوا جبکہ پچھلے 4 مہینوں کے دوران اس میں بہتری دیکھی گئی تھی۔

مانیٹری پالیسی کمیٹی نے توقع ظاہر کیا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مالی سال 2024 کے حوالے سے گزشتہ پیش گوئی کی حد میں رہے گا۔

مانیٹری پالیسی کمیٹی نے کہا کہ توانائی کی قیمتوں اور بیس ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے ستمبر میں مہنگائی میں اضافے کا امکان تھا جبکہ اکتوبر میں مہنگائی میں کمی کا امکان ظاہر کیا گیا تھا اور کمی کا رجحان غالب رہے گا۔

مہنگائی کے خطرات برقرار

ٹاپ سیکیورٹیز کے سی ای او محمد سہیل نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود برقرار رکھی ہے جو توقعات کے برعکس ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک ماننا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود مہنگائی نہیں بڑے گی اور حقیقی شرح سود مثبت رہے گی، مزید یہ کہ مرکزی بینک روپے کی قدر اور اسمگلنگ کے حوالے سے کیے گئے اقدامات اور رواں برس کی زرعی پیداوار سے پرامید ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ماننا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے اندازے کے بجائے مہنگائی کا خطرہ بدستور بلند رہے گا۔

ماہر معیشت عمار خان نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے شرح سود برقرار رکھتے ہوئے مسلسل منفی رجحان میں رکھا ہے، خاص طور پر جب روپے کی فراہمی بلاروک ٹوک جاری ہے۔

دوسری جانب اسمٰعیل اقبال سیکیورٹیز میں ریسرچ کے سربراہ فہد رؤف کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کا فیصلہ ہماری توقعات کے مطابق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں یہ اچھا فیصلہ ہے کیونکہ معیشت میں بہت زیادہ مشکلات کے اشارے نہیں ہیں اور شرح سود میں اضافہ مہنگائی روکنے کے حوالے سے معمولی سود مند ہوسکتا تھا۔

فہد رؤف نے کہا کہ شرح سود میں اضافے سے حکومت کا مالی خسارہ مزید بڑھے گا اور بینکنگ کے نظام میں کریڈٹ کے حوالے سے خطرات پیدا ہوں گے۔

یاد رہے کہ اسٹیٹ بینک نے 27 جون کو عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) سے معاہدے کے پیش نظر شرح سود بڑھا کر 22 فیصد کردی تھی، جس کے بعد 31 جولائی کو منعقدہ اجلاس میں اسی شرح کو برقرار رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے شرح سود 22 فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے گزشتہ اجلاسوں کا جائزہ لیا اور آخری ریگولر اجلاس 12 جون کو ہوا تھا جس کے بعد ایک خاص اجلاس 26 جون کو ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ کہ کمیٹی نے ان دونوں اجلاسوں کے درمیان جو معاشی اتار چڑھاؤ آیا تھا، اس کا جائزہ لیا اور کمیٹی نے شرح سود کو 22 فیصد تک برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے بیرونی چیزوں، افراط زر میں پیش رفت کا بھی معائنہ کیا اور سی بی آئی میں سالانہ مہنگائی کا بھی جائزہ لیا گیا کیونکہ مئی میں افراط زر 38 فیصد تھی جو کہ جون کے مہینے میں کم ہوکر 29.4 فیصد رہ گئی۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا تھا کہ مالی سال 2023 میں افراط زر کا تناسب 29.2 فیصد رہا، کمیٹی نے اگلے سال کے لیے بھی افراط زر کا معائنہ کیا اور ماہر اقتصادیات کی پیش گوئی سے افراط زر 20 سے 22 فیصد رہنے کی توقع کی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ کمیٹی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ مئی میں افراط زر 29.4 فیصد تھی لیکن آنے والے مہینوں کے اندر یہ آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہوگی، مزید کہا کہ اگلے سال جنوری سے جون تک افراط زر تیزی سے کم ہوگی، اور کمیٹی نے اصرار کیا ہے کہ مالی سال 2025 ختم ہونے سے قبل افراط زر کو 5 سے 6 فیصد تک لایا جائے گا جس کے لیے ہم درست سمت پر ہیں۔

واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک نے اپریل 2022 سے جولائی تک شرح سود میں 12.25 اضافہ کردیا تھا جس میں تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔

اسٹیٹ بینک نے جون میں کہا تھا کہ گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح بلندترین 38 فیصد کو پہنچ گئی تھی اور رواں ماہ اس میں کمی آئی ہے۔

دوسری جانب مہینے کے اختتام سے قبل ہی آئی ایم ایف سے معاہدہ یقینی بنانے کے لیے ہنگامی اجلاس میں 100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کرتے ہوئے جواز پیش کیا تھا کہ مہنگائی میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں طے پانے والے میمورنڈم آف اکنامکس اینڈ فنانشل پالیسیز (ایم ای ایف پی) میں کہا گیا تھا کہ زری کمیٹی کے اگلے اجلاس میں مزید اقدامات کے لیے تیار ہیں، جب تک مہنگائی کی شرح واضح طور پر تنزلی کی طرف گامزن نہیں ہوتیں۔

تبصرے (0) بند ہیں