سائفر کیس: عمران خان، شاہ محمود قریشی کی ضمانت مسترد، اسدعمر کی درخواست منظور

اپ ڈیٹ 14 ستمبر 2023
سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی 26 ستمبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں —فائل فوٹو:ڈان نیوز
سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی 26 ستمبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں —فائل فوٹو:ڈان نیوز

اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سفارتی سائفر سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج مقدمے میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت مسترد جب کہ سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اسد عمر کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرلی۔

سائفر کیس میں عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کی درخواست ضمانت پر خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے سماعت کی، اسد عمر اپنے وکلا کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔

اسد عمر کی درخواست ضمانت پر سماعت سے قبل اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی خصوصی عدالت پہنچے، انہوں نے ساڑھے بارہ بجے سماعت مقرر کرنے کی استدعا کی، ذوالفقار نقوی نے کہا کہ ساڑھے بارہ بجے سائفر کیس کی سماعت مقرر کردیں، دیگر اسپیشل پراسیکیوٹرز کو بھی سپریم کورٹ جانا ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل صفائی سلمان صفدر نے کہا کہ مجھے اجازت دی جائے دلائل دینے کی کیونکہ ہم نے بھی ہائی کورٹ جانا ہے، جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ سائفر کیس کی درخواست ضمانت پر سماعت تو آج ہوگی، یہ سن لیں۔

وکیل صفائی سلمان صفدر نے کہا کہ ہر سماعت پر اسپیشل پراسیکیوٹرز کوئی بہانا کرتے ہیں، جج ابوالحسنات نے کہا کہ دونوں فریقین کی موجودگی میں ہی سائفر کیس کی سماعت ہوگی، اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہا کہ پراسیکیوشن جیسی ہی فارغ ہوتی ہے جوڈیشل کمپلیکس پہنچ جائےگی، شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے کہا کہ ذوالفقار نقوی سینئر ہیں، بار بار مداخلت کرنا تاخیر کرنا اچھا نہیں۔

وکیل صفائی سلمان صفدر نے کہا کہ مجھے کم سے کم ایک گھنٹہ تو دلائل کے لیے دیا جائے، ایک نہیں، تین، تین اسپیشل پراسیکیوٹرز سائفر کیس میں ہیں، اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہا کہ کیا ہم سپریم کورٹ چھوڑ دیں؟ یہ ہائی کورٹ چھوڑ نہیں رہے اور ہمیں سپریم کورٹ چھوڑنے کا کہہ رہے، سیکرٹ ایکٹ عدالت میں جھوٹ کیوں بولیں گے؟

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ذوالفقار نقوی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اسپیشل پراسیکیوٹرز کی غیر موجودگی میں درخواست ضمانت پر پی ٹی آئی کے رہنماؤں عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کے وکلا کو دلائل دینے کی اجازت دے دی۔

اسپیشل پراسیکیوٹرز ذوالفقار نقوی اور رضوان عباسی کمرہ عدالت سے روانہ ہوگئے، پی ٹی آئی وکلا اور اسد عمر کمرہ عدالت میں ہی موجود رہے جس کے بعد جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اے ٹی سی عدالت میں مقرر دیگر کیسز کی سماعت شروع کردی۔

جج ابوالحسنات نے کہا کہ اسپیشل پراسیکیوٹرز کو جلدی سے بلالیں، 10 بجے سائفر کیس کی سماعت شروع کردیں گے، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ تین مختلف اسپیشل پراسیکیوٹرز موجود ہیں، ہمیں دلائل دینے کی اجازت دی جائے، سائفر کیس کی سماعت شروع کرنے کی اجازت دی جائے، اسپیشل پراسیکیوٹرز خود پہنچیں گے، دس بجے دلائل دینے کی اجازت دی جائے۔

معاون وکیل ایف آئی اے نے کہا کہ نہیں دس بجے سے تھوڑا آگے کردیں وقت، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ پھر چھوڑ دیں، ختم کریں، ہم بحث ہی نہیں کرتے، یہ کیا طریقہ ہے، شاہ محمود قریشی کے وکیل ایڈووکیٹ علی بخاری نے کہا کہ انہوں نے التوا ہی لینا ہے، اسی لیے انہیں بھیجا گیا ہے۔

جج ابوالحسنات نے کہا کہ میں چاہتا ہوں پی ٹی آئی وکلا اور اسپیشل پراسیکیوٹرز دلائل دیں، میں تو درخواست ضمانت پر دلائل آج ضرور سنوں گا، آج پراسیکیوشن دلائل دے نہ دے، درخواست ضمانت پر فیصلہ میں محفوظ کرلوں گا۔

ایف آئی اے نے گیارہ بجے کیس مقرر کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ٹرائل کورٹ میں مصروف ہیں، جج نے کہا کہ اگر یہ کہیں ہم نہیں آسکتے اس کے باوجود بھی سنو ں گا، اگر آج ایف آئی اے عدالتی معاونت نہیں کرے گی تو اس کے باوجود میں فیصلہ کروں گا۔

جج نے ایف آئی اے کو ہدایت دی کہ آپ ایسا کریں، کوئی ایک پراسیکیوٹر آجائے پھر باقی آجائیں ، ایف آئی اے نے کہا کہ تین پراسیکیوٹرز ابھی مصروف ہیں، کوئی مناسب وقت مقرر کردیں، ایف آئی اے نے گیارہ بجے کا وقت مقرر کرنے کی استدعا کی جس پر جج نے کہا کہ گیارہ بجے نہیں ساڑھے دس بجے کا وقت مقرر کرتا ہوں۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ میں دس بجے آہستہ آہستہ ایف آئی آر پڑھنی شروع کردوں گا، چلیں پھر سوا دس رکھ لیں، عدالت نے سوا دس بجے پراسیکیوٹر کو پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو اسد عمرکے وکیل بابر اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میرا پراسیکوشن سے ایک سادہ سا سوال ہے، اس کا جواب آجائے تو دلائل شروع کروں گا، میرے مؤکل کے خلاف اب تک کیا تفتیش ہوئی؟

جج نے پراسیکیوشن سے استفسار کیا کہ جی بتائیں اب تک کیا تفتیش ہوئی ہے؟ اسد عمر کی جانب سے بابر اعوان نے کہا کہ شامل تفتیش ہوچکا ہوں، اپنا جواب باقاعدہ جمع کراچکا ہوں، جج نے کہا کہ ایک ہی کیس ہے تو باقی وکلا کو بھی بلا لیں، عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکلا کو بھی بلانے کی ہدایت کردی۔

بابر اعوان نے کہا کہ اگر ہم مارچ 2022 سے شروع کریں تو سال سے زائد کا عرصہ تحقیقات کو ہوا، عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل سلمان صفدر سے مکالمہ کیا کہ ضمانت کا ہی معاملہ ہے تو آپ روسٹرم پر آجائیں۔

عدالت نے پراسیکوشن پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ہی فیصلہ کیا جائے گا، پراسیکوشن نے کہا کہ ملزم شامل تفتیش ہوتے ہیں، تفتیشی کسی کے پیچھے نہیں جاتے، یہ ابھی تک شامل تفتیش نہیں ہوئے، اگر یہ شامل تفتیش ہوتے تو ہوسکتا ہے یہ بے گناہ قرار دیے جاتے۔

عدالت نے پراسیکیوشن سے استفسار کیا کہ آپ کے پاس موقع تھا کیوں نہیں کیا؟ جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ ایف آئی آر میں تو ان کا نام بھی واضح نہیں ہے، اسد عمر کی ضمانت کو الگ اور باقی دو کا الگ فیصلہ کرنا ہے۔

بابر اعوان نے پراسیکیوشن سے مکالمہ کیا کہ آپ مجھے بلائیں تو میں آجاؤں گا، وکیل صفائی بابراعوان نے کہا کہ 22 اگست کو اسد عمر کی درخواست ضمانت دائر کی تھی، رواں سال مارچ میں سائفر کی انکوائری کو شروع ہوئے ایک سال ہوا۔

اسپیشل پراسیکیوٹرز کے معاون نے ایک بار پھر سماعت 12 بجے شروع کونے کی استدعا کی، اسد عمر کے شامل تفتیش ہونے پر اسپیشل پراسیکیوٹرز کے معاون نے اعتراض اٹھایا۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ میں آج نہیں سنوں گا، معذرت ہے، درخواست ضمانت پر دلائل ہوں گے، پراسیکیوشن کے معاون وکیل نے کہا کہ اسدعمر کو ایف آئی اے خود آنا تھا، تفتیشی افسر کو ان کے پاس نہیں آنا تھا، ابھی اسد عمر کے کردار پر سائفر کیس میں تفتیش مکمل کرنی ہے۔

جج ابوالحسنات نے کہا کہ ایک ضمانت کے باعث دیگر ضمانتیں بھی نہیں سنی جاسکیں، پراسیکیوشن معاون وکیل نے کہا کہ اسد عمر کو مچلکے جمع کروا کر تفتیشی افسر کے پاس جانا تھا، اسد عمر درخواست ضمانت منظور توسیع کے بعد شامل تفتیش نہیں ہوئے، اسد عمر کی حد تک تفتیش مکمل نہیں ہوئی، درخواست ضمانت پر دلائل نہیں بنتے۔

جج ابوالحسنات نے کہا کہ قانون میں میرٹ کو دیکھا جائےگا، عدالت نے آپ کی خواہشات پر نہیں چلنا، جو اسد عمر سے سوال کرنا ہے کمرہ عدالت میں بٹھا کر کرلیں، صاف سی بات ہے جو حق ہوگا اسے ملےگا، جو نہیں ہوگا میں نہیں دوں گا،
عدالت نے کہا کہ آپ نے ان سے جو بات کرنی ہے کریں، آپ کوئی تھرڈ ڈگری تو نہیں دیں گے۔

اسد عمر نے کہا کہ ایف آئی اے نے مجھے دو دفعہ بلایا اور دو دو گھنٹے سوالات کیے، ڈیڑھ سال سے کچھ بھی نہیں ہوا، نہ ہی مقدمے میں میرا کوئی واضح ذکر ہے، یہ صرف سیاسی کیس ہے اور دباؤ ڈالنے کے لیے ایسا کیا جارہا ہے۔

جج نے کہا کہ آپ جو بھی کریں، میں نے آج ہی فیصلہ کرنا ہے ، اسد عمر، چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود کی درخواستوں پر فیصلہ آج کرکے رہوں گا، جتنی مرضی درخواستیں دینی ہیں، دے دیں، تمام درخواستوں پر فیصلے آج سناؤں گا۔

اسپیشل پراسیکیوٹرز کے معاون نے تینوں ضمانتوں پر دلائل ایک ساتھ سننے کی استدعا کی، جج ابوالحسنات نے کہا کہ 2 درخواست ضمانت بعد از گرفتاری اور ایک درخواست ضمانت قبل از گرفتاری کی ہے، وہ الگ الگ سنی جائیں گی، جائز بات کریں، عدالت کو بتائیں اسد عمر کا کردار براہ راست نہیں تو مقدمے میں نامزد کیوں کیا؟

جج ابوالحسنات نے کہا کہ اسدعمر کی درخواست ضمانت کی مخالفت کیوں کی جارہی؟ ٹھوس وجہ بتائیں، درخواست ضمانتوں پر کوئی سمجھوتا نہیں ہونا، فیصلہ ہوگا تو آج ہوگا، اسپیشل پراسیکیوٹرز کو بتا دیں، نہیں پہنچے تو دلائل شروع ہو جائیں گے، اسپیشل پراسیکیوٹرز کو پیغام دے دیں پہنچنے کا، ایسے نہیں چلے گا کام۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل لکھوانا شروع کردیے، انہوں نے کہا کہ تاریخ میں اتنا کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جتنا عمران خان کو بنایا گیا، چیئرمین پی ٹی آئی محب وطن پاکستانی ہیں، بطور وزیراعظم ملک کی خودمختاری کا سوچا، ان کےخلاف 180 سے زائد کیسز درج کیے گئے، 140 سے زائد کیسز عمران خان کی گرفتاری سے قبل درج کیےگئے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ایف آئی اے نے جھوٹے مقاصد اور اتھارٹی کاغلط استعمال کرتے ہوئے سائفر کیس کا مقدمہ درج کیا، سائفر کیس کے مقدمے میں سب کے جلد بازی میں نام نامزد کیےگئے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور عدالت پہنچ گئے، وکیل سلمان صفدر کے دلائل کے دوران اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے مداخلت کی، اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے کہا کہ اسدعمر کی کیس میں تاحال گرفتاری مطلوب نہیں، اسد عمر کے خلاف کوئی ثبوت ابھی موجود نہیں، اگر اسد عمر کی درخواست ضمانت پر دلائل سننے ہیں تو عدالت کی اپنی مرضی، تفتیش کے دوران اگر کوئی ثبوت ملا تو اسدعمر کو آگاہ کیاجائےگا۔

وکیل بابراعوان نے استدعا کی کہ ایف آئی اے کے پاس ثبوت ہی نہیں تو ضمانت کنفرم کردی جائے، جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اسد عمر کی درخواست ضمانت پر اوپن کورٹ میں فیصلہ لکھوانا شروع کرتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن کے مطابق اسد عمر کے خلاف تاحال ثبوت نہیں، اسد عمر نے شامل تفتیش ہونے کا اظہار کیا لیکن پراسیکیوشن نے شامل تفتیش نہیں کیا۔

جج ابوالحسنات نے فیصلہ کیا کہ ایف آئی اے کی تفتیش کے مطابق اسد عمر کی گرفتاری مطلوب نہیں، اگر اسد عمر کی گرفتاری مطلوب ہوئی تو ایف آئی اے قانون کے مطابق چلےگی، گرفتاری مطلوب ہوئی تو ایف ائی اے اسد عمر کو پہلے آگاہ کرےگی، اسد عمر کی درخواست ضمانت 50 ہزار روپے مچلکوں کے عوض کنفرم کردی گئی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر وکیل سلمان صفدر نے دلائل دوبارہ شروع کرتے ہوئے کہا کہ سائفر کیس کا مدعی وزارت داخلہ کا افسر ہے، وزارت داخلہ نے سائفر کیس ہائی جیک کیا، سائفر واشنگٹن سے بھیجا گیا جس کی وصولی وزارتِ خارجہ نے کی، عمران خان پر سائفر کیس میں ذاتی مفادات حاصل کرنے کا الزام ہے، سابق وزیر اعظم پر سائفر کیس میں قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کا بھی الزام ہے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان کا ذکر مقدمے میں ہے، کیا اعظم خان عدالت میں ہیں؟ کیا اعظم خان کی ضمانت منظور ہوئی؟ پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے کہ سائفر کا اصلی اور نقلی ورژن کیا تھا، پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے کہ عمران خان سے قومی سلامتی کو کیا نقصان ہوا، الزام لگایا گیا کہ عمران خان نے جان بوجھ کر سائفر کو اپنی تحویل میں رکھا۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ کیس ہے کہ سائفر غلط رکھا اور غلط استعمال کیا، ثابت کرنا پراسیکیوشن کا کام ہے، پراسیکیوشن کو ثابت کرنا ہے کہ سائفر کیس سے بیرون ملک طاقتیں مضبوط ہوئیں، سائفر کیس سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج ہوا، کمرہ عدالت میں موجود کوئی بھی 1923 میں پیدا نہیں ہوا ہوگا، اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے کہا کہ میرے والد صاحب 1923 میں پیدا ہوئے تھے، ان کے اس جملے پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ جو توشہ خانہ کیس کی کڑکی میں پھنس گئے ہیں انہیں پراسیکیوشن اندر رکھنا چاہتی ہے، ڈیڑھ سال سائفر کیس کی تحقیقات جاری رہیں، مقدمہ تب بنایا جب چیئرمین پی ٹی آئی توشہ خانہ کیس میں گرفتار ہوئے، سائفر کیس سیاسی انتقام لینے کے لیے بنایا گیا ہے، ذمہ دار وزیر اعظم رہے، وہ پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ ہیں، انہوں نے 71 کی عمر میں جرم کی دنیا میں پیر رکھا، گزشتہ سماعت پر انسدادِ منشیات کے جج نے بطور منتظم جج سماعت کی۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ منتظم جج نے کہا یہ تو انسدادِ منشیات کی عدالت ہے، میں نے کہا چیئرمین پی ٹی آئی پر صرف منشیات کا کیس بنانا ہی رہ گیا ہے، قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے عمران خان نے کوئی ایسا کام نہیں کیا، سائفر ہےکیا؟ بےشک کوڈڈ دستاویز ہوتا جس میں کمیونیکیشن ہوتی۔

جج ابوالحسنات نے کہا کہ سائفر ہے کیا؟ اس پر ضرور بات کرنی ہے، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر ٹریننگ شدہ افراد کے پاس آتا ہے، عام انسان نہیں پڑھ سکتا۔

جج ابوالحسنات نے کہا کہ وزارتِ خارجہ سائفر کی وصولی کرتاہے، سائفر آیا اور کہاں گیا؟ سائفرکیس یہ ہے، سائفر کے 4 نقول آتے جن میں آرمی چیف، وزیراعظم شامل ہوتے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ آج کسی کلبھوشن یادیو یا ابھی نندن کا کیس نہیں سنا جارہا، سائفر کیس بہت خطرناک کیس بنایا گیا ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 تو لگتا ہی نہیں ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کوئی جاسوس نہیں، سابق وزیراعظم ہیں، دورانِ ٹرائل معلوم ہوگا کہ سائفر پر بیان سے ملک کو بچایا گیا یا ملک دشمن قوتوں کی سہولت کاری کی، جرم دشمن ملک سے حساس معلومات شیئر کرنا ہے، سیکرٹ ایکٹ تو لاگو ہی نہیں ہوتا، ایف آئی اے سے تو کوئی امید نہیں، امید صرف عدالت سے ہے۔

جج ابوالحسنات نے کہا کہ دو کیٹیگریز کی لسٹ ہے، بہت اہم بات کرنے لگا ہوں، سیکشن 5، سیکشن 3 کیا لاگو ہوتاہے یا نہیں؟ سائفر کیس سب اس پر ہے، اگر جرم ثابت ہوتا تو سیکشن 3 اے لاگو ہوتی ہے، سائفر وزارتِ خارجہ سے وزیراعظم کو ملا، لیکن سائفر ہے کہاں؟

جج ابوالحسنات نے کہا کہ وزیراعظم، ڈی جی آئی ایس آئی، آرمی چیف، وزارت خارجہ کا سائفر ڈاکیومنٹ الگ الگ ہے، سلمان صفدر نے کہا کہ 1923 کے قانون کو سہارا دینے کی اچانک کیوں ضرورت پڑی؟

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کیس میں ملک دشمن عناصر سے کچھ بھی شئیر نہیں کیاگیا، قومی سلامتی کا معاملہ ہے، اگر رات گئے بھی بیٹھنا پڑے تو کوئی نہیں گھبرائے گا، اب معلوم کرنا ہے سائفر کیس سیکشن 3 اے کا ہے یا سیکشن 3 بی کا، پراسیکیوشن بتائے کہ بیرون ملک کس کو چیئرمین پی ٹی آئی کے سائفرپر بیان سے فائدہ ہوا، ایف آئی اے نے قانون کو توڑ مروڑ کر سائفر کیس بنایا جو قابل ضمانت ہے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کیس تو بنایا ہی بیرون ملک طاقتور کے ساتھ معلومات شیئر کرنے پر ہے، ایسا تو کچھ بھی نہیں، کیس بنتاہےتو پوری کابینہ پر بنتاہے، فرد واحد پر نہیں بنتا، 7 مارچ 2022 کو سائفر وزارت خارجہ کو موصول ہوا، وزیراعظم ہاؤس کے آفیشلز کی زمیداری ہے کہ سائفر کدھر گیا، سائفر کی زمیداری وزیراعظم کی نہیں بنتی، ان کے ماتحت کام کرنے والوں کی بنتی، اگر سائفر جرم ہوتا تو 31 مارچ 2022 کو قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے کیوں رکھا جاتا؟

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کا مسئلہ قومی سلامتی کمیٹی میں رکھا گیا، فیصلہ ہوا غیر ملکی سفیر سے بات کی جائےگی، سائفر عوام کے سامنے نہیں رکھت گئے، نکات شئیر نہیں ہوئے، چیئرمین پی ٹی آئی پر الزام لگایا کہ سائفر کو لہرایا گیا، وزارتِ خارجہ کے مطابق سائفر ان کے پاس موجود ہے، مجھے باخدا معلوم نہیں تھا کہ عمران خان سائفر کیس میں گرفتار ہیں، عطا تارڑ نے ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر کہا سابق وزیر اعظم سائفر کیس میں جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عجیب بات ہے، سائفر کیس میں عطا تارڑ کو چیئرمین پی ٹی آئی کا معلوم ہے، پی ٹی آئی وکلا کو نہیں، تاحال سابق وزیر اعظم سے سائفر کیس میں کچھ برآمد نہیں ہوا، کمیٹی متفقہ طور پر فیصلہ کرتی ہے کہ سائفر کے نکات کیا ہیں، کابینہ سائفر کو ڈی کلاسیفائی کرتی ہے، کابینہ کے منٹس ریکارڈ پر موجود ہیں، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں سپریم کورٹ میں سائفر کیس زیر بحث آیا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تو نہیں کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف سائفر کیس درج کیا جائے، سائفر کیس سابق وزیر اعظم کی گرفتاری کا کیس تو بنتا ہی نہیں، سائفر اس وقت عمران خان کے پاس نہیں، پراسیکیوشن کو کیسے معلوم ہوا کہ سائفر اصلی تھا، اصلی سائفر لائیں، چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی تعلیم یافتہ افراد ہیں، بیرون ملک سے پڑھے ہوئے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ نام کیا ہے ملک دشمن کا جس کو سائفر سے فائدہ ہوا؟ بتائیں تو صحیح۔

اس کے ساتھ ہی چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر کے دلائل مکمل ہوگئے اور وہ ہائی کورٹ کے لیے روانہ ہوئے جس کے بعد وکیل ڈاکٹر بابر اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ الزام ہے کہ سائفر کے حوالے سے غیر متعلقہ افراد کے ساتھ کمیونیکیشن ہوئی، سائفر وصول ہوا، رکھا گیا، وزارت خارجہ کے سیکریٹری کے پاس خصوصی طور پر ہوتا ہے۔

وکیل بابر اعوان نے کہا کہ سائفر وزیرخارجہ کے پاس موجود ہے جس کی سربراہی وزیرخارجہ کے سیکریٹری کرتے، کیا سائفر چوری ہوا؟ کیا وزیر خارجہ کے سیکریٹری مدعی ہیں؟ سائفر کیس کا مقدمہ تو وزیر خارجہ کو دائر کرنا بنتا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی پر الزام ہےکہ سائفر کو قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا، نوٹ کرنے والی بات ہے سیکیورٹی اداروں میں سے کوئی بھی سائفر کیس کا مدعی نہیں، دائر مقدمے کے مطابق سائفر اعظم خان کو دیاگیا جو نامزد نہ گرفتار ہیں۔

وکیل بابر اعوان نے کہا کہ پراسیکیوشن نے اعظم خان کے خلاف کوئی بھی کاروائی نہیں کی، نہ اشتہاری کی قرار دیا، چیئرمین پی ٹی آئی پر الزام ہے بیرون ملک عناصر کو سائفر سے فائدہ پہنچایا گیا، بیرون ملک عناصر نے پاکستانی سفیر اسد مجید سے ملاقات کی، بات قومی سلامتی کمیٹی میں بھی زیر بحث آئی، بیرون ملک سے پاکستان کو دھمکی آئے تو وزارتِ خارجہ سو جائے؟ وزارتِ خارجہ نے کابینہ کے سامنے سائفر رکھا جس کو ڈی سیل کرک دوبارہ سیل کردیا گیا، آئین پاکستان کے مطابق وفاقی کابینہ اور قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے سائفرکو رکھاگیا۔

وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ملکی سلامتی کے لیے بیرون ملک سے آئی سازش کو متعلقہ فورم پر بتانا ذمہ داری ہوتی، اگر سائفر چوری ہوا تو قومی سلامتی کمیٹی نے اس پر دوسری میٹنگ کیسے کرلی؟ کہانی من گھڑت ہے، میں آپ کو کچھ دکھانا چاہتا ہوں، جج ابوالحسنات نے ریمارکس دیے کیا آپ مجھے سائفر دکھانا چاہتے ہیں؟ جس پر عدالت میں قہقہے لگے، وکیل بابراعوان نے کہا کہ میں آپ کو ابو السائفر دکھانا چاہتا ہوں، ان کے جملے پر بھی عدالت میں قہقہے لگے، وکیل بابر اعوان نے کہا کہ معذرت! کمپیوٹر ابوالسائفر نہیں دکھا رہا، موبائل پر دکھاتا ہوں۔

وکیل بابر اعوان نے موبائل پر کمرہ عدالت میں ویڈیو دکھائی، وکیل بابراعوان نے کہا کہ ایک سماعت چل رہی تھی جس پر آپ نے کہا میں دلاور نہیں دلیر ہوں،جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ دلاور اور دلیر کے دو مختلف معنی ہیں، وکیل بابراعوان نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کی رہائش گاہ پر چھاپا ماراگیا لیکن کچھ برآمد نہ ہوا، 7 وزرائے اعظم کے ساتھ پولیس کیٹ واک کرتی عدالت آتی تھی۔

وکیل بابراعوان نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کو کل ہتھکڑی لگایا گیا، ایک زمےدار شخص ہیں، کیا وہ بھاگ جاتے؟ شاہ محمود قریشی کو ہتھکڑی لگا کر عدالت پیش کرنے کا نوٹس لیاجائے، شاہ محمود قریشی سے دورانِ جسمانی ریمانڈ کچھ برآمد نہیں ہوا، شاہ محمود قریشی کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں رکھنا درست نہیں، شاہ محمود قریشی کے خلاف مقدمے میں کسی ثبوت کا ذکر نہیں، کہیں نہیں لکھا گیا کہ شاہ محمود قریشی نے اپنی اتھارٹی کا ناجائز فائدہ اٹھایا، ریاستی ادارے متفقہ طور پر سائفر کا معاملہ قومی سلامتی کونسل میں زیر بحث لائے۔

وکیل بابراعوان نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیاکہ سائفر ایک حقیقت ہے، تفتیشی افسر نے سائفر کا ڈائری نمبر لکھا بھی ہوا ہے، اسد عمر پر ایک مقدمہ ہوا کہ لاہور میں صبح سویرے کھڑے ہو کر عوام کو اکسایا، صبح سویرے اٹھنے والا الزام تو اسدعمر کے گھر والوں نے ان پر کبھی نہیں لگایا، سائفر چوری کا الزام لگایا، کیا چوری شدہ سائفر ملا کسی کو؟

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ امریکا سے سائفر وزارت خارجہ کو موصول ہوا، اعظم خان نے وصول کیا، وکیل بابراعوان نے کہا کہ تو اعظم خان ہے کہاں؟ اعظم خان کی غیر موجودگی ثبوت ہےکہ تحقیقات مکمل نہیں۔

بابر اعوان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد وکیل علی بخاری نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ تھے، سائفر آیا، عملہ بتائے گا تو کابینہ میں دیں گے، جج ابوالحسنات نے کہا کہ جب سائفر موصول ہوا تو پھر کہاں گیا، وکیل علی بخاری نے ایف آئی آر پڑھ کر سنائی گئی، وکیل علی بخاری نے کہا کہ 1923 ایکٹ کے تحت یہ مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی اے پراسیکوٹر ذوالفقار نقوی کمرہ عدالت میں پہنچ گئے، وکیل علی بخاری نے آرٹیکل 12 عدالت میں پڑھ کر سنایا، وکیل علی بخاری نے کہا کہ 12 دن جسمانی ریمانڈ دیا گیا اور آج بھی جیل میں موجود ہیں، شاہ محمود قریشی کو ہتھکڑیاں لگا کر یہاں لایا گیا تاکہ ذلیل کیا جاسکے، وکیل علی بخاری کی جانب سے شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کرنے کی استدعا کر دی گئی۔

علی بخاری کے دلائل مکمل ہونے کے بعد دوسرے وکیل شعیب شاہین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ کوئی دستاویزات تو پیش کریں، شاہ محمود قریشی کی کوئی تقریر بھی نہیں بتائی بس نام لے لیا گیا، شاہ محمود قریشی نے صرف پریس کانفرنس نہیں کی بس نام ڈال دیا، اگر حقائق ہی ٹوسٹ ہو گئے تو سیکریسی کہا گئی۔

جج ابوالحسنات نے کہا کہ دو باتیں کلیئر کریں، سائفر وزارت خارجہ سے گیا؟ وہ دستاویزات کہاں ہیں، وزارت خارجہ کا الگ ہے، آرمی چیف کا الگ ہے، وزیر اعظم آفس کا الگ سائفر ڈاکیومنٹ ہے۔

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ آپ کا آفس آپ کو ڈاکیومنٹ دیتا ہے آپ کے آفس کے عملے کی ذمہ داری ہے سنبھالنا، وزیراعظم کے پاس ہزاروں فائلز آتی ہیں، دستاویزات سنبھالنا ان کا کام نہیں، وزیراعظم آفس میں آنے والی دستاویزات سنبھالنا وزیراعظم کا کام نہیں پرنسپل سیکریٹری کا کام ہے۔

شاہ محمود قریشی کے وکیل شعیب شاہین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد وکیل شیر افضل مروت نے دلائل کا آغاز کیا اور مؤقف اپنایا کہ سیکرٹ ایکٹ 1923 میں نہیں بتایا گیا کہ سائفر کو کس طرح ڈی کلاسیفائی کرنا ہے، کلاسیفائید انفارمیشن آخر ہے کیا؟ عدالت پہلے اس کا تعین کریں، ڈونلڈ لو نے کہا پی ٹی آئی کی حکومت گرائیں ورنہ نتائج کے لیے تیار رہیں، پاکستان کی سائفر لینگویج کسی دوسرے ملک کے ساتھ نہیں ملتی۔

وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ سیکرٹ ایکٹ 1923 در اصل صحافیوں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے تھا، سائفر آیا، سیاسی مقاصد تھے، پی ٹی آئی حکومت ایک ہفتے میں ختم ہوگئی، سپریم کورٹ نے 2022 میں سائفر کے حوالے سے پورے ملک کو بتایا، سائفر کوئی دستخط شدہ دستاویز نہیں تھا، کمپیوٹر سے نکالا گیا دستاویز تھا، سائفر کے ہزاروں فوٹو کاپیاں کریں تو سائفر ہی کہلائےگا۔

وکیل شیر افضل مروت نے بھی دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد درخواست ضمانت کی بقیہ سماعت ان کیمرا قرار دیتے ہوئے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے کہا کہ باقی سماعت ان کیمرا ہو گی، غیر متعلقہ افراد ، وکلا اور صحافیوں کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا گیا۔

اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے کمرہ عدالت میں پی ٹی آئی وکلا کی بڑی تعداد پر اعتراض اٹھادیا، اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے کہا کہ سائفر کیس کی اِن کیمرا سماعت ہے، پی ٹی آئی وکلا ویڈیوز بناتے ہیں، غیر متعلقہ افراد کو کمرہ عدالت سے نکلایا جائے یا حلف لیا جائے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جج صاحب نے کہا ہے آج ہی فیصلہ سنائیں گے۔

بعد ازاں خصوصی عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں ضمانت کی درخواست مسترد کر دیں۔

واضح رہے کہ اسد عمر کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست سائفر کیس میں منظور کی گئی ہے، یہ کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، اسی کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی 26 ستمبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔

پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی، پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی بھی اسی کیس میں ریمانڈ پر ہیں۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں