’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سپریم کورٹ کے قوانین کے مطابق ہے‘

اپ ڈیٹ 26 ستمبر 2023
عدالت 3 اکتوبر کو اس معاملے کی دوبارہ سماعت کرے گی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت 3 اکتوبر کو اس معاملے کی دوبارہ سماعت کرے گی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

پاکستان مسلم لیگ (ق) نے گزشتہ روز عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کا مقصد عدلیہ کی آزادی، قانون کی حکمرانی اور انصاف اور منصفانہ ٹرائل کے لیے عدالت سے رجوع کے حق کو فروغ دینا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ق) نے اپنے وکیل زاہد ایف ابراہیم کے توسط سے جمع کروائے گئے جواب میں کہا کہ سپریم کورٹ کے قواعد یہ کہتے ہیں کہ مقننہ خاص طور پر بینچوں کی تشکیل کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے عمل اور طریقہ کار کا تعین کر سکتی ہے، پارلیمنٹ کو اس سے متعلق قانون سازی کرنے کا حق ہے اور اس نے قانون اور آئین کے مطابق ہی ایسا کیا ہے۔

گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے 25 ستمبر تک فریقین سے جواب طلب کیا تھا جبکہ عدالت 3 اکتوبر کو اس معاملے کی دوبارہ سماعت کرے گی۔

درخواست گزار راجا امیر خان کی جانب سے خواجہ طارق رحیم نے عدالت سے استدعا کی کہ اس ایکٹ کو غیر قانونی قرار دیا جائے کیونکہ پارلیمنٹ کسی عام قانون کے ذریعے آرٹیکل 184 (3) کو تبدیل نہیں کر سکتی اور نہ ہی سپریم کورٹ (1980 رولز) کے وضع کردہ قواعد کے سلسلے میں کسی بھی طرح سے مداخلت کر سکتی ہے، جنہیں آئین میں تحفظ حاصل ہے۔

خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ جب پارلیمنٹ آئینی ترمیم کرتی ہے تو سپریم ہو سکتی ہے لیکن ایسے معاملات میں بھی آئین میں چیک اینڈ بیلنس موجود ہیں جیسا کہ تمہید یا قرارداد مقاصد میں بیان کیا گیا ہے۔

درخواست گزار نے یہ بھی استدلال کیا کہ پارلیمنٹ عام قانون سازی سے آرٹیکل 184/3 کے اختیار کا طریقہ تبدیل نہیں کر سکتی، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے عدالتی امور کی انجام دہی تبدیل نہیں کی جا سکتی۔

انہوں نے استدلال کیا کہ آرٹیکل 191 نے سپریم کورٹ کو رولز بنانے کا اختیار دیا ہے اور یہی وہ اختیار تھا جو سپریم کورٹ کے معاملات کو ریگولیٹ کرنے کے لیے 1980 کے قوانین میں لائے گئے ایس آر او 1159-آئی/80 میں استعمال کیا گیا۔

دوسرے لفظوں میں، قواعد کو ’آئینی حمایت‘ حاصل ہے کیونکہ وہ فُل کورٹ کی جانب سے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بنائے گئے تھے کہ عدالت عظمیٰ ایک مقررہ مینڈیٹ کے اندر کام کرے اور قرارداد مقاصد میں درج بنیادی مقصد کو بھی یقینی بنائے کہ عدلیہ کی آزادی کا مکمل طور پر تحفظ کیا جائے گا۔

جواب میں استدلال کیا گیا کہ ریاست کے کسی ادارے کے قوانین پر کسی دوسرے ادارے کے ذریعے تجاوز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ قانون سازی کا اختیار ہر ایک ادارے کا خصوصی ڈومین ہے اور ریاست کے کسی دوسرے ادارے کے ذریعے اس پر تجاوز نہیں کیا جا سکتا۔

مسلم لیگ (ق) کا جواب

دوسری طرف سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے تحریری جواب میں مسلم لیگ (ق) نے دلیل دی کہ پارلیمنٹ کا بنیادی اور مرکزی کام قوانین بنانا ہے اور عدالتوں کو قانون کے مقصد کو یہ مدنظر رکھتے ہوئے اہمیت دینا چاہیے کہ قانون سازی سماجی پالیسی کو فروغ دیتی ہے اور سماجی مقاصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔

جواب میں کہا گیا کہ یہ موضوعی خصوصیت قانون کی تشریح میں ایک اہم عنصر بن جاتی ہے، اس لیے پہلی صورت میں عدالتوں کا کردار عوامی مفاد میں ان قوانین کی حفاظت اور ان کو عملی جامہ پہنانا ہے، سپریم کورٹ کا تعلق قانون سازی کی حکمت سے نہیں بلکہ صرف اس کی آئینی حیثیت سے ہے۔

جواب میں مزید کہا گیا کہ ایکٹ کے تناظر میں، بالخصوص اپیل کے حق، آئین کی فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ (ایف ایل ایل)کے اندراج 55 میں سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں توسیع کو شامل کرنے کے لیے قانون سازی کے شعبے کی وضاحت کی گئی ہے، اس لیے مقننہ کو قانونی طور پر 2023 ایکٹ کی قانون سازی کی اجازت دی گئی ہے۔

وکیل نے عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک طرف تو یہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارات کو عدالت عظمیٰ کے دائرہ اختیار اور اختیارات پر کوئی بھی قانون بنانے تک محدود کرتی ہے اور دوسری طرف سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار اور ضمنی اختیارات کے حوالے سے پارلیمنٹ کو توسیع کے لیے قانون بنانے کا اختیار دیتی ہے۔

جواب میں کہا گیا کہ آرٹیکل 191 کے مطابق پارلیمنٹ کو واضح طور پر سپریم کورٹ کے عمل اور طریقہ کار سے متعلق معاملات پر قانون سازی کا حق حاصل ہے، درحقیقت سپریم کورٹ رولز 1980 کا آرڈر 11 خود کہتا ہے کہ پارلیمنٹ اس معاملے پر قانون سازی کر سکتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں