ایک اعلیٰ امریکی اینٹی۔ٹرسٹ ریگولیٹر نے ایمیزون کے اوپر مقدمہ دائر کیا اور الزام عائد کیا ہے کہ آن لائن ریٹیلر نے غیر قانونی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے، اور ممکنہ حریفوں کو دبایا جارہا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق فیڈرل ٹریڈ کمیشن (ایف ٹی سی) کی چیئرپرسن لینا خان نے کہا کہ ہم نے شکایت میں بتایا ہے کہ ایمیزون نے کس طرح زبردستی کے ہتھکنڈے استعمال کر کے اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔

ایف ٹی سی، جس کے ساتھ کیس میں امریکا کی 17 ریاستیں شامل ہیں، نے کہا کہ ایمیزون نے اینٹی ٹرسٹ قانون کی دونوں طرح سے خلاف ورزی کی ہے، جس کا تعلق ’مارکیٹ پلیس‘ سے ہے، جو بیرونی خریداروں اور بیچنے والوں کو اپنے پلیٹ فارم کے ذریعے منسلک کرتی ہے۔

پہلی مثال یہ ہے کہ کیس میں ایمیزون پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ اپنی ویب سائٹ پر فروخت کنندگان کو اس طرح سزا دیتا ہے کہ اگر وہ کسی اور پلیٹ فارم پر اپنی مصنوعات کم قیمت پر بیچتے ہیں تو ایمیزون پر ان کی اشیا کی رینکنگ نیچے کردی جاتی ہے۔

ایف ٹی سی نے کہا کہ فروخت کنندگان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ ایمیزون کی ’مہنگی‘ لاجسٹک سروس ’پرائم‘ صارفین کو متعارف کروائیں، جو سائٹ کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ استعمال کرنے والے صارفین ہیں۔

ایف ٹی سی بیوریو آف کمپیٹیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر جون نیو مین کا کہنا ہے کہ ایمیزون ایسا اجارہ دار ہے، جو اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے امریکی خریداروں کے لیے قیمتیں بڑھاتا ہے اور لاکھوں ڈالرز فروخت کنندگان سے وصول کرتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا کی تاریخ میں ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ ایک کیس میں اتنا پوٹینشل ہو کہ وہ کافی افراد کا بھلا کر سکے۔

ایمیزون نے اس کیس کی بنیاد کو ماننے سے انکار کردیا۔

ایمیزون کے گلوبل پبلک پالیسی کے سینئر نائب صدر ڈیوڈ زاپولسکی کا کہنا تھا کہ دائر کردہ مقدمہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایف ٹی سی کی توجہ خریداروں اور مسابقت کے تحفظ کے اپنے مشن سے بالکل ہٹ گئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف ٹی سی کی جانب سے دائر کردہ کیس حقائق اور قانون کے برعکس ہے اور ہم یہ کیس عدالت میں لڑنے کے منتظر ہیں۔

مکمل غالب

انسٹی ٹیوٹ برائے مقامی خود انحصاری کے شریک ایگزیکٹو ڈائریکٹر اسٹیسی مشیل کا کہنا ہے کہ ای کامرس ایک ایسا سیکٹر ہونا چاہیے جہاں پر مختلف منڈیاں ہوں، جو خریداروں اور فروخت کنندگان کو اپنی طرف متوجہ کر سکیں، مگر اس کے برعکس ایک ادارہ مکمل غلبہ حاصل کر چکا ہے۔

ایمیزون کافی عرصے سے ایف ٹی سی کی نظروں میں ہے۔

گزشتہ سال جون میں ایف ٹی سی نے ایمیزون کے خلاف یہ شکایت دائر کی تھی کہ یہ پرائم سبسکرپشن کے ذریعے اپنے صارفین کو جال میں پھنسا رہا ہے جس کی خود ہی تجدید ہو جاتی ہے اوراس کو خارج کرنا بھی انتہائی پیچیدہ ہے۔

ایف ٹی سی نے ایمیزون پر صارفین کی ڈیٹا کی حفاظت سے متعلق بھی اعتراض کیا تھا، پچھلے سال مئی میں ایمیزون نے اپنے سیکیورٹی کیمرہ رنگ پر جاسوسی کے الزام میں 3 کروڑ ڈالر سے زائد کی رقم بھرنے کی بھی آمادگی ظاہر کی تھی۔

یہ کیس لینا خان کے لیے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، جنہوں نے ’ایمیزون کے اینٹی ٹرسٹ پیراڈوکس‘ کے عنوان سے ایک مقالے میں یہ سوال اٹھا کر اکیڈمکس میں اپنا نام بنایا کہ کیا ڈیجیٹل دور میں اینٹی ٹرسٹ قوانین کے مقصد کے لیے موزوں ہے۔

ان کا مشہور مقالہ قدامت پسند اسکالر رابرٹ بورک کے ایک بنیادی کام کا جواب تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ منصفانہ مسابقت کو نافذ کرنے والے اس وقت تک کھڑے ہو جائیں جب تک کہ زیادہ قیمتوں کا واضح خطرہ اور صارفین کے لیے خطرہ ثابت نہ ہو جائے۔

1970 کی دہائی میں لکھا جانے والا روبرٹ بورک کا فلسفہ حکومتوں کے رویوں اور آج تک ہونے والے بڑے عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔

2021 میں امریکی صدر جو بائیڈن نے لینا خان کو ایجنسی کی سربراہی کے لیے چنا تھا، جس کا مقصد صارفین کے مفاد کا تحفظ اور کاروبار کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ بنائے رکھنا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں