غیرقانونی طور مقیم افغان شہریوں کو ملک سے نکالنے کے فیصلے پر مختلف حلقوں کا اظہارِ تشویش

اپ ڈیٹ 04 اکتوبر 2023
اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت خانے کی جانب سے بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے — فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت خانے کی جانب سے بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے — فوٹو: اے ایف پی

حکومت کی جانب سے ملک میں ’غیر قانونی‘ طور پر مقیم غیر ملکی افراد، جن میں اکثریت افغان شہریوں کی سمجھی جاتی ہے، کو رضاکارانہ طور پر یکم نومبر تک اپنے وطن واپس لوٹ جانے کی ڈیڈ لائن کے اعلان کو کئی حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے تازہ ترین اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ تقریباً 13 لاکھ افغان پاکستان میں رجسٹرڈ مہاجرین ہیں جبکہ 8 لاکھ 80 ہزار غیر رجسٹرد افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں، تاہم نگران وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 17 لاکھ افغان مہاجرین غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔

اس اعلان پر اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت خانے کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا، بیان میں پنجاب اور سندھ پولیس پر افغان مہاجرین کے خلاف بلاتفریق ’بے رحمانہ‘ آپریشن کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔

افغانستان کے سفارت خانے کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران ایک ہزار سے زائد افغان شہریوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے، جن میں سے نصف کے پاس پاکستان میں قانونی حقوق حاصل ہیں۔

علاوہ ازیں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی پناہ گزینوں کے لیے خوف کی فضا پیدا کرنے پر اظہارِ تشویش کیا اور حکومتِ پاکستان سے افغان پناہ گزینوں کو گرفتار اور ہراساں کرنے کا سلسلہ روکنے کا مطالبہ کیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ طالبان کے ظلم و ستم کے خوف سے بہت سے افغان شہری پاکستان فرار ہونے پر مجور ہوگئے تھے، جہاں انہیں بلاجواز گرفتاریوں اور ملک بدر کیے جانے کی دھمکیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ حکومتِ پاکستان، افغان مہاجرین کو ایسے ہینڈل کر رہی ہے جیسے وہ مغلوب ہوں، آج جو دشمنی کے بیج بوئے جا رہے ہیں اس کی فصل آئندہ نسلیں بھگتیں گی، یہ پاک-افغان پالیسی کا سیاہ ترین باب ہے۔

سماجی کارکن مینا گبینا نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ یہ پالیسی کس طرح براہ راست ہزارہ برادری، خاص طور پر بچوں اور خواتین پر اثر انداز ہوگی، جو طالبان کی جانب سے کئی قسم کا جبر برداشت کر چکے ہیں۔

انہوں نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ یہ کہانیاں حقیقی ہیں، اگر آپ غیر قانونی تارکین وطن کو سننے کی کوشش کریں، جنہیں معصوم لوگ بھی کہا جاتا ہے، تو آپ کو معلوم ہو جائے گا۔

سماجی کارکن اسامہ خلجی نے کہا کہ ’پناہ گزینوں کو بے دخل کرنا غیر قانونی ہے۔

انہوں نے ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’حکومتِ پاکستان کو اس نازک صورتحال کا ادراک ہونا چاہیے کہ طالبان حکومت کے زیرِ اقتدار افغانستان میں لڑکیوں کو تعلیم تک رسائی حاصل نہیں ہے اور خواتین حقوق سے محروم ہیں۔

محسن داوڑ کی نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) کے عہدیدار اسفندیار خان نے بھی افغان مہاجرین کے ساتھ ’غیر انسانی سلوک‘ کی مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ حکومتِ پاکستان انہیں یہاں لا کر، انہیں تربیت دے کر اور پھر ان کے حقوق کو نظر انداز کر کے امن قائم نہیں کر سکتی، انہیں عالمی قوانین اور انسانی وقار کو برقرار رکھنا چاہیے۔

اس نئی پالیسی کے حوالے سے سوال پر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے صرف اتنا کہا کہ فرار ہونے یا بیرون ملک دوبارہ آباد ہونے کے خواہشمند افغان شہریوں کی آبادکاری میں پاکستان ایک اہم شراکت دار رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار نے بھی اس ڈیڈ لائن کی مخالفت کی ہے، پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر (یو این ایچ سی آر) کے ایک عہدیدار قیصر خان آفریدی نے ترک نیوز ایجنسی ’انادولو‘ کو بتایا کہ کسی بھی پناہ گزین کی واپسی رضاکارانہ اور بغیر کسی دباؤ کے ہونی چاہیے تاکہ ان لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں عالمی تحفظ کے خواہاں افراد کی نگرانی اور ریکارڈ کے اندراج کے لیے ایک نظام وضع کرنے اور ’مخصوص خطرات‘ سے نمٹنے کے لیے ’یو این ایچ سی آر‘ پاکستان کی مدد کے لیے تیار ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں