نواز شریف کی قانونی ٹیم ریلیف کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کو تیار

اپ ڈیٹ 17 اکتوبر 2023
نواز شریف 21 اکتوبر کو لاہور واپس آنے والے ہیں — فائل فوٹو: ڈان نیوز
نواز شریف 21 اکتوبر کو لاہور واپس آنے والے ہیں — فائل فوٹو: ڈان نیوز

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی قانونی ٹیم نے نواز شریف کی حفاظتی ضمانت کے حصول کے لیے اپنی تیاریاں مکمل کر لی ہیں، ایون فیلڈ، العزیزیہ اور توشہ خانہ کیسز میں ریلیف کے لیے آئندہ چند روز میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں کم از کم 3 درخواستیں دائر کیے جانے کا امکان ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف 21 اکتوبر کو لاہور واپس آنے والے ہیں، جہاں وہ ایک جلسے سے خطاب کریں گے۔

نواز شریف کو ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں سزا سنائی گئی تھی اور اسلام آباد کی احتساب عدالت میں زیر التوا توشہ خانہ کیس میں انہیں اشتہاری قرار دیا گیا تھا، ان مقدمات میں طبی بنیادوں پر ضمانت حاصل کرکے وہ علاج کے لیے برطانیہ چلے گئے تھے۔

پیش رفت سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ حفاظتی ضمانت کی درخواستیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کیے جانے کا امکان ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ بظاہر عدالت کے کچھ سابقہ فیصلوں کی وجہ سے ہوا ہے، جن میں اسلام آباد ہوئی کورٹ نے مفرور اور اشتہاری قرار دیے جانے والے مجرموں کو حفاظتی ضمانت دے دی تھی، ان میں شرجیل انعام میمن، ارباب عالمگیر اور عاصمہ ارباب شامل ہیں۔

اس سے پہلے حفاظتی ضمانت صرف اس صورت میں دی جا سکتی تھی جب مجرم عدالت کے سامنے سرینڈر کر دے، تاہم ان مذکورہ کیسز میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سرینڈر کیے بغیر حفاظتی ضمانت دینے کی مثال قائم کی تھی۔

عدالتی ذرائع کے مطابق کم از کم 2 سماعتیں ہوں گی، ایک ان کی آمد سے قبل ہوگی اور دوسری سماعت میں نواز شریف کو عدالت کے سامنے سرینڈر کرنا ہے۔

ذرائع نے مزید کہا کہ سرینڈر کرنے کے بعد نواز شریف کو ایون فیلڈ اپارٹمنٹ اور العزیزیہ ریفرنسز میں سزا کے خلاف اور توشہ خانہ کیس میں اپیل دائر کرنی ہوگی۔

توشہ خانہ کیس نیب ترامیم کے تحت ٹل گیا تھا، تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے مذکورہ ترامیم کو ختم کرنے اور نیب کو کرپشن کیسز بحال کرنے کی ہدایت کے بعد یہ کیس دوبارہ کھل گیا۔

2018 میں عدالتوں نے نواز شریف کو 2 مقدمات (ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور العزیزیہ ریفرنسز) میں سزا سنائی تھی، تاہم نواز شریف کو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں بری کر دیا گیا تھا۔

مرحوم جج ارشد ملک نے نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنائی تھی، بعد ازاں ارشد ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے مبینہ طور پر جبر کے تحت اس کیس کا فیصلہ لکھا تھا۔

نواز شریف کو اس کیس میں 8 ہفتوں کے لیے ضمانت دی گئی تھی اور وہ علاج کے لیے برطانیہ چلے گئے تھے، ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کیس میں نواز شریف کو مفرور بھی قرار دیا جا چکا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ

تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلے (جس میں مریم نواز شریف اور ان کے شریک حیات کو بری کر دیا گیا) نے عملاً نواز شریف کو بھی تمام الزامات سے بری کر دیا۔

فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے نواز شریف کے خلاف اس کیس میں مریم نواز اور ان کے شوہر محمد صفدر کا تعلق ہونے کے حوالے سے بحث کی۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ مریم نواز کو ’بوگس دستاویز پیش کرنے اور اپنے والد کی جائیدادیں چھپانے میں معاون ثابت ہونے پر سزا سنائی گئی‘۔

نواز شریف کیس میں مفرور قرار دیے گئے تھے تاہم اس کے باوجود بینچ نے ایون فیلڈ کیس میں نواز شریف کے کردار کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔

عدالت نے کہا کہ یہ بات پوری طرح سے واضح ہے کہ لگائے گئے الزامات مبہم ہیں کیونکہ نواز شریف اور ان کی معاون مریم نواز کے کردار کو باقاعدہ طور پر واضح نہیں کیا گیا ہے۔

بینچ نے کہا کہ اپیل کرنے والوں (مریم نواز اور کیپٹن صفدر) کے کیس کو نواز شریف کے کیس سے الگ نہیں کیا جا سکتا، مشاہدہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اپیل کنندہ نمبر ایک (مریم نواز) پر الزام براہ راست مرکزی ملزم کے جرم پر منحصر ہے۔

عدالت نے کہا تھا کہ استغاثہ نے نواز شریف کی آمدنی کے معلوم ذرائع کے مطابق ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی مالیت کا تخمینہ نہیں لگایا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں