23 اکتوبر کو افغانستان کے خلاف پاکستان کی ’شرمناک شکست‘ پر کرکٹ لیجنڈ وسیم اکرم، مصباح الحق، شعیب اختر سمیت بھارت کے سابق کرکٹرز بھی قومی ٹیم پر برس پڑے اور کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔

پیر کو ورلڈ کپ کے اہم میچ میں افغانستان نے ایک اور بڑا اپ سیٹ کرتے ہوئے پاکستان کو پہلی بار 8 وکٹوں سے بدترین شکست دی تھی۔

اس میچ کے بعد پاکستان کی ایونٹ کے سیمی فائنل تک رسائی پر ایک بار پھر گہرے بادل منڈلانے لگے ہیں۔

ٹورنامنٹ کے ابتدائی دونوں میچوں میں کامیابی کے بعد قومی ٹیم کو لگاتار تین شکستوں کا منہ دیکھنا پڑا جس کے بعد گرین شرٹس ایونٹ میں مشکلات سے دوچار ہیں۔

گرین شرٹس اب اپنا اگلا میچ جنوبی افریقہ، بنگلا دیش، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ سے کھیلے گی اگر وہ سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنا چاہتے ہیں تو اب ان کے لیے تمام میچز جیتنا ضروری ہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ مکی آرتھر، گرانٹ بریڈ برن اور بابر اعظم اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کریں، پاکستان پوائنٹ ٹیبل میں نیچے ہیں لیکن قومی ٹیم کے پاس اب بھی چانس ہے کہ وہ سیمی فائنل تک پہنچ سکیں۔

خراب فیلڈنگ کے علاوہ بیٹنگ اور باؤلنگ میں مسلسل ناقص کارکردگی پر سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم قومی ٹیم پر برس پڑے اور انہوں نے کھلاڑیوں کی فٹنس پر غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے منیجمنٹ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔

اے اسپورٹس چینل پر گفتگو کرتے ہوئے وسیم اکرم نے کہا کہ شرمندگی کی بات ہے کہ افغانستان 2 وکٹوں کے نقصان سے 280 جیسا بڑا اسکور بنا گیا، ہمارے کھلاڑیوں کا فٹنس لیول دیکھیں، ہم کئی ہفتوں سے ٹی وی اسکرین پر چیخیں مار رہے ہیں کہ 2 سال سے کھلاڑیوں کا فٹنس ٹیسٹ نہیں ہوا۔

انہوں نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں اب کیا کھلاڑیوں کے نام لوں جن کے اتنے بڑے بڑے منہ ہوگئے ہیں، انہیں دیکھ کر لگتا ہے جیسے روزانہ 8 ،8 کلوکڑاہی یا نہاری کھاتے ہوں، کیا ان کھلاڑیوں کے فٹنس ٹیسٹ نہیں ہونے چاہیئں؟

انہوں نے مزید کہا کہ پروفیشنلی ان لوگوں کو معاوضہ مل رہا ہے، اپنے ملک کے لیے کھیل رہے ہیں، ان کے لیے کوئی معیاری اصول تو ہونے چاہئیں، اب ہم اس پوزیشن پر پہنچ چکے ہیں جہاں ’اگر مگر اور لیکن‘ ہونے کی دعا کریں گے۔

57 سالہ وسیم اکرم نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کوچنگ اسٹاف اور انتظامیہ میں تبدیلیوں پر مایوسی کا اظہار کیا۔

اسی پروگرام کے دوران شعیب ملک نے کہا کہ ہمارے اسپنرز کو بھی باؤلنگ میں کافی مشکل ہورہی ہے، ہمارے کپتان آؤٹ آف دی باکس نہیں سوچتے۔

اس کے علاوہ شعیب اختر نے یوٹیوب پر قومی ٹیم کی کارکردگی پر تجزیہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کرکٹ آج جس مقام پر کھڑی ہے وہ ان کے اپنے انتخاب کا نتیجہ ہے جو گزشتہ دنوں منتخب کیے گئے’

انہوں نے مزید کہا کہ ’قومیں اچھے لوگوں کو مقام دیتی ہیں اور پھر یہی لوگ تاریخ بناتے ہیں انہیں لوگوں سے ادارے تشکیل پاتے ہیں، لوگ میری برانڈ بلڈنگ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن برانڈ بلڈنگ دراصل انسٹیٹیوشن بلڈنگ ہے، اسی سے برانڈ بنتے ہیں‘۔

صرف پاکستان کے سابق کرکٹر ہی نہیں بلکہ بھارت کے سابق کرکٹرز نے بھی قومی ٹیم کی خراب کارکردگی پر اپنا تجزیہ دیا۔

سابق بھارتی کرکٹر گوتم گمبھیر نے کہا کہ ’ہم نے ایشیا کپ میں بھی پاکستان کی فیلڈنگ پر بات کی تھی، ایشیا کپ سے لے کر پاکستان کی فیلڈنگ مسلسل خراب ہے اور ابھی تک کوئی بہتری نہیں آئی ہے، یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس ورلڈ کپ میں پاکستان کی فیلڈنگ بہت عام ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسپنرز سے باؤلنگ نہیں ہورہی ہے، تینوں اسپنرز میں سے کوئی ایک بھی وکٹ نہیں لے سکا۔

گوتم گھمبیر نے پاکستانی بلے بازوں پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ٹاپ پانچ بلے باز ایک ہی قسم کے ہیں، ان کے پاس افتخار احمد کے علاوہ کوئی بہتر بلے باز نہیں ہے جو کھیل کو آگے لے جا سکے۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج کی کرکٹ 1990 یا 2011 جیسی کرکٹ نہیں رہی جہاں آپ 270 یا 280 رنز بنائیں اور یہ سوچیں کہ باؤلرز کھیل بچا لیں گے، دو نئی گیندیں، فلیٹ وکٹیں، دائرے کے اندر پانچ فیلڈرز، آپ کو اٹیکنگ کرکٹ کھیلنی ہوگی۔

یہی نہیں بلکہ سابق بھارتی کرکٹر وریندر سہواگ اور انگلینڈ کے سابق کرکٹر مائیکل وان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر قومی ٹیم کا مذاق اڑایا۔

انہوں نے لکھا کہ ’پاکستان ایک unpredictable ٹیم ہے لیکن گزشتہ تین میچز میں جس طرح وہ کھیلی ہے اور اپنی شکست پر بہانے بنا رہی ہے تو یقینی طور پر ایسا ہونا تھا، پاکستان ٹیم نے اپنی کمزوریوں پر توجہ نہیں دی، افغانستان کے لیے آج فخر کا دن تھا۔

انگلینڈ کے سابق کرکٹر مائیکل وان نے لکھا کہ ’میرا خیال ہے کہ ’دل دل پاکستان‘ آج چنئی میں نہیں چلایا گیا۔‘

تبصرے (0) بند ہیں