افغان حکومت پاکستان سے بے دخل پناہ گزینوں کو قونصل جنرل کی تصدیق کے بعد قبول کرے گی

اپ ڈیٹ 25 نومبر 2023
ذرائع نے بتایا کہ رضاکارانہ وطن واپسی اب بھی بغیر کسی رکاوٹ کے جاری ہے— فوٹو: اے ایف پی
ذرائع نے بتایا کہ رضاکارانہ وطن واپسی اب بھی بغیر کسی رکاوٹ کے جاری ہے— فوٹو: اے ایف پی

افغانستان کی حکومت نے پاکستان سے بے دخل کیے جانے والے پناگزینوں کو قبول کرنے کے لیے قونصل جنرل کی تصدیق سے منسلک کر دیا ہے، جو ان کی حیثیت کا تعین کرے گا اور پشاور میں رواں ماہ کے شروع میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی واپسی کے آغاز کے بعد پہلی مرتبہ جمعے کو کسی ایک غیر قانونی پناگزین کو بھی خیبرپختونخوا کے راستے واپس نہیں بھیجا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پشاور میں افغان قونصل خانے کے ذرائع نے بتایا کہ ملک بدری کی شرائط بالخصوص پاکستانی شہریوں کی افغان پناہ گزین کے طور پر افغانستان آمد سمیت دیگر کئی وجوہات کی وجہ سے متعارف کروائی گئی ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں کو بطور غیر قانونی تارکین وطن افغانستان بھیجے جانے کے متعدد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب بھی افغان انتظامیہ ان پاکستانیوں کو سرحد لے کر گئی تو پاکستانی حکام نے ان کو لینے سے انکارکر دیا۔

ذرائع نے یہ بھی اصرار کیا کہ سیکڑوں افغان شہریوں کو ان کے سامان کے بغیر وطن واپس بھیجنے سے قبل پاکستان میں گرفتار کیا گیا تھا۔

انہوں نے رضاکارانہ طور پر وطن لوٹنے والوں سمیت دستاویزات کے حامل افغان باشندوں کی گرفتاری کا بھی انکشاف کیا۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو ذرائع نے بتایا کہ کہ کئی غیر قانونی تارکین وطن رضاکارانہ طور پر پاکستان چھوڑ رہے ہیں، مگر انہیں ملک بدری سے پہلے راستے میں روک کر تحویل میں لیا گیا، انہیں اپنا سامان لے جانے تک کا وقت نہیں دیا جاتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ انتظامیہ نےواپس لوٹنے والے افغان باشندوں کو تنگ نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر غیر تصدیق شدہ دستاویزات کے حامل لوگوں نے ہراسانی کے واقعات رپورٹ کیے۔

حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان خاندانوں کے افراد کے ایک دوسرے سے الگ ہوجانے کی متعدد شکایات بھی موصول ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کئی معاملات میں غیر دستاویزی خاندانوں کے مردوں کو ان کی خواتین کے بغیر ہی ملک بدر کر دیا گیا ہے۔

پاکستانی حکام نے ڈان کو بتایا کہ افغان انتظامیہ نے انہیں ملک بدری کی شرط کے حوالے سے کبھی آگاہ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)کی جانب سے دستاویز میں شامل کیے بغیر کوئی شہری ملک سے باہر نہیں جا سکتا۔

حکام نے پاکستانیوں کے افغانستان واپس بھیجے جانے کے دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اس تاثر کو مسترد کر دیا اور بتایا کہ نادرا کی طرف سے ’مستقبل میں استعمال‘کے لیے تمام جلاوطن افراد کی تصاویر اور فنگر پرنٹس رکھے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان حکام کی جانب سے تصدیق کی شرط غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری میں مزید تاخیر کا باعث ہوگی کیونکہ اس عمل میں شامل افراد کو افغان قونصل خانے کے تصدیقی خط کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور یہ غیر ملکیوں کو مزید کئی دن حراست میں گزارنے پر مجبور کرتا ہے۔

ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ صرف ملک بدری کا تعلق تصدیقی خط کے ساتھ ہے، رضاکارانہ وطن واپسی اب بھی بغیر کسی رکاوٹ کے جاری ہے۔

دریں اثنا، حکام کے مطابق جمعرات کو تقریباً 119 غیر قانونی تارکین وطن کو پنجاب سے طورخم بارڈر کراسنگ کے ذریعے افغانستان بھیج دیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 52 غیر دستاویزی افغان باشندوں کو اٹک، 12 کو راولپنڈی، 47 کو چکوال، دو کو پاکپتن، ایک کو حافظ آباد اور 5 کو گجرات سے واپس بھیجا گیا۔

حکام نے بتایا کہ اسلام آباد سے 16، پشاور سے 188 اور قبائلی ضلع خیبر سے 22 غیر قانونی غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا گیا۔

انہوں نےکہا کہ 17 ستمبر سے دو لاکھ 38 ہزار 519 سے زائد غیر قانونی تارکین وطن جن میں 66 ہزار 394 مرد، 52 ہزار 199 خواتین اور ایک لاکھ 16 ہزار 209 بچے شامل ہیں، ضلع خیبرکے طورخم بارڈر پوائنٹ اور ضلع پاراچنار کے خرلاچی بارڈر پوائنٹ کے راستے افغانستان روانہ ہوگئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں