ڈالر کی قدر میں اضافے کے سبب بینک ڈالر فروخت کرنے سے گریزاں

اپ ڈیٹ 26 نومبر 2023
ڈالر کی قلت اور اس کی قدر میں اضافے کی بڑی وجہ بینکوں کی جانب سے ڈالر فروخت نہ کرنا ہے — فائل فوٹو: رائٹرز
ڈالر کی قلت اور اس کی قدر میں اضافے کی بڑی وجہ بینکوں کی جانب سے ڈالر فروخت نہ کرنا ہے — فائل فوٹو: رائٹرز

بینکنگ ذرائع نے کہا ہے کہ شرح تبادلہ کی بڑھتی ہوئی بےیقینی کے پیش نظر بینک ڈالر فروخت کرنے سے گریزاں ہیں جس کی وجہ سے درآمد کنندگان کے لیے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کھولنا مشکل ہو رہا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق کرنسی ڈیلرز نے کہا کہ اس ماہ ڈالر کی آمد کم تھی لیکن بینک اپنے پاس زیادہ سے زیادہ لیکویڈٹی رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، کرنسی مارکیٹ میں کام کرنے والے ایک سینئر بینکر عاطف احمد نے کہا کہ بینک، بینکنگ مارکیٹ میں ڈالر فروخت کرنے سے گریزاں ہیں جو ڈالر کی قلت اور اس کی قدر میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ رواں ماہ کے دوران ڈالر کی آمد کم رہی لیکن یہ رکی نہیں، بینک ایکسچینج ریٹ کے رجحان پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں جو مستحکم نہیں ہے اور اسی رجحان کے پیش نظر وہ ڈالر اپنے پاس رکھ رہے ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور وزارت خزانہ کا دعویٰ ہے کہ درآمدات پر کوئی پابندی نہیں ہے اور درآمد کنندگان ایل سی کھولنے کے لیے آزاد ہیں البتہ درآمد کنندگان اس دعوے کی تردید کر رہے ہیں۔

تیار ٹیکسٹائل مصنوعات کے برآمد کنندہ عامر عزیز نے کہا کہ ہم برآمدی مصنوعات کی تیاری کے لیے سامان درآمد کرتے ہیں اور ملک کے لیے ڈالر کماتے ہیں، صورتحال ہمارے لیے مایوس کن ہے اور یہ یقینی طور پر اس سال ہماری برآمدات کو متاثر کرے گی۔

بینکرز نے کہا کہ ڈالر کی قدر میں پھر سے اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے کیونکہ درآمدات اور قرض کی سروسز کے لیے درکار رقوم پائپ لائن میں نہیں ہیں۔

عامر عزیز نے کہا کہ حکومت کے دعوؤں کے برعکس معیشت اچھی حالت میں نہیں ہے، رواں مالی سال کے دوران درآمدات میں زبردست کمی آئی ہے۔

اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ کے دوران 9.7 ارب ڈالر برآمدات میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوا جہاں گزشتہ سال اس دورانیے میں بھی اتنی ہی برآمدات ریکارڈ کی گئی تھی۔

تاہم مالی سال 2024 کے دوران جولائی سے اکتوبر تک درآمدات 20 فیصد کم ہو کر 16.8 ارب ڈالر رہ گئیں جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 21 ارب ڈالر تھیں۔

مقامی کرنسی مسلسل دباؤ کا شکار ہے لیکن حکومت کا ماننا ہے کہ درآمدات میں کمی سے اس مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔

نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے حال ہی میں کہا تھا کہ اس سال اگست کے دوسرے ہفتے سے روپیہ ڈالر کے مقابلے میں دباؤ کا شکار ہے جس کی بنیادی وجہ حکومت کی نگران سیٹ اپ میں منتقلی، اقتصادی اصلاحات کے تسلسل اور آئی ایم ایف کے قرض پروگرام سے متعلق بےیقینی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ مقامی کرنسی کی قدر میں کمی کے پس پردہ بنیادی عوامل دراصل ڈالر کی آمد میں کمی، برآمدات میں جمود اور زرمبادلہ کے کمزور ذخائر ہیں۔

تجزیہ کاروں اور معاشی ماہرین نے درآمدات میں 20 فیصد کمی کا تخمینہ لگاتے ہوئے کہا کہ درآمدات کی بدولت ہونے والی نمو کم ترین سطح پر چلی گئی ہے جبکہ مالی سال 24 میں مجموعی نمو کا تخمینہ 2 فیصد سے بھی کم تھا۔

وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ معاشی بحالی کے آثار واضح نظر آرہے ہیں اور ملک کی جی ڈی پی کی شرح نمو مالی سال 2024 میں 2 سے 3 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے جو کہ مالی سال 23 میں 0.3 فیصد تھی۔

کم درآمدات کی بدولت حکومت کو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی لیکن اس کے لیے معاشی ترقی پر سمجھوتہ کرنا ہو گا۔

اسٹیٹ بینک کے گورنر جمیل احمد نے جمعہ کو کہا تھا کہ مالی سال 24 کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا 1.5 فیصد کے قریب ہو گا۔

تبصرے (0) بند ہیں