دسمبر کے وسط تک پاکستان آئی ایم ایف کے ایجنڈے میں شامل نہیں

حکام کوشاں ہیں کہ 7 دسمبر یا کرسمس کی تعطیلات سے پہلے کی کوئی بھی تاریخ مل جائے—فائل فوٹو: اے ایف پی
حکام کوشاں ہیں کہ 7 دسمبر یا کرسمس کی تعطیلات سے پہلے کی کوئی بھی تاریخ مل جائے—فائل فوٹو: اے ایف پی

عملے کی سطح پر معاہدے کی منظوری اور 70 کروڑ ڈالر کے اجرا کے لیے پاکستان دسمبر کے وسط تک عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ کے شیڈول میں شامل نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا کہ وزارت خزانہ کی جانب سے دسمبر کے پہلے ہفتے میں کوئی تاریخ حاصل کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے تاکہ 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے پہلے جائزے کے لیے پاکستان کے ساتھ عملے کی سطح پر معاہدے کی منظوری کو یقینی بنایا جا سکے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکام ہر سطح پر زور دے رہے ہیں کہ 7 دسمبر یا کرسمس کی تعطیلات سے پہلے کی کوئی بھی تاریخ مل جائے تاکہ سال کے اختتام سے قبل ایگزیکٹو بورڈ کے سامنے پاکستان کا معاملہ رکھا جا سکے۔

تاہم کم از کم 14 دسمبر تک ایسا ممکن نظر نہیں آرہا، کرسمس اور نئے سال کی تعطیلات کی وجہ سے ایگزیکٹو بورڈ کے اراکین دسمبر کے آخری ہفتے اور جنوری کے پہلے ہفتے میں دستیاب نہیں ہوں گے۔

گزشتہ روز آئی ایم ایف نے اپنے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاسوں کے شیڈول کو اپ ڈیٹ کیا، وزارت خزانہ سے اس حوالے سے رائے لینے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

کرغزستان کے سوا تقریباً 12 ممالک ایسے ہیں جن کے کیسز (آرٹیکل-4 مشاورت اور پروگرام کے جائزے) 14 دسمبر تک ایگزیکٹو بورڈ کے ایجنڈے پر ہیں۔

یہ ممالک آرمینیا، بنگلہ دیش، بیلجیئم، بینن، کابو وردے، کانگو، کوٹ ڈی آئیوری، مالڈووا، روانڈا، سینیگال، صومالیہ اور سری لنکا ہیں۔

ان اجلاسوں میں مختلف پہلو زیرِغور ہوں گے جن میں اقتصادی پیش رفت اور رکن ممالک کی پالیسیوں پر آرٹیکل 4 مشاورت شامل ہے، آئی ایم ایف کے امدادی پیکجز کا بھی ایگزیکٹو بورڈ جائزہ لے گا، مثلاً توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) جس پر اس نے پاکستان کے ساتھ بھی دستخط کیے ہیں۔

بقایا پیشگی اقدامات نہ ہونے کی صورت میں عام طور پر آئی ایم ایف کے بورڈ آف ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کو عملے کی سطح کے معاہدے کے بعد منظوری کے لیے تقریباً 15 روز کا وقت لگتا ہے۔

پاکستان کے کیس میں پہلی سہ ماہی کے جائزے کے لیے کوئی پیشگی کارروائی باقی نہیں ہے، آئی ایم ایف کے عملے اور پاکستانی حکام کے درمیان 15 نومبر کو اسلام آباد میں پہلے جائزے پر عملے کی سطح پر معاہدہ ہوا تھا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو تقریباً 70 کروڑ ڈالر مل سکیں گے اور اس کی منظوری سے رواں برس جولائی میں 9 ماہ کے لیے دستخط کیے گئے 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت کل ادائیگی تقریباً ایک ارب 90 کروڑ ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

ایسا طویل عرصے کے بعد ہوا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سہ ماہی جائزہ ہموار رہا اور اس کا نتیجہ عملے کی سطح پر معاہدے کے فوری اعلان کی صورت میں نکلا کیونکہ زیادہ تر اہداف حاصل کرلیے گئے تھے۔

آئی ایم ایف مشن نے حکام سے مارکیٹ کے مطابق شرح تبادلہ پر واپس آنے کا مطالبہ کیا تھا اور جغرافیائی سیاسی کشیدگی، اجناس کی قیمتوں میں اضافے اور مشکل عالمی مالیاتی حالات کے سبب پیدا ہونے والے خطرات پر روشنی ڈالی تھی اور حکام کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اس سے نمٹنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔

انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ حکام کی پالیسی اور اصلاحات کی کوششوں کی معاونت کے لیے طے شدہ بیرونی امداد کا بروقت اجرا ضروری ہے کیونکہ حکومت کثیرالجہتی اور سرکاری دو طرفہ شراکت داروں کے ساتھ مصروفیت کو بڑھا رہی ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ سعودی عرب نے پاکستان کے قومی خزانے میں ڈپازٹ کیے گئے 3 ارب ڈالر کی مدت میں توسیع کردی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں