برطانیہ کی نئی امیگریشن پالیسی سے جنوبی ایشیائی ممالک کے عوام نالاں

10 دسمبر 2023
لوگ نئے ضوابط کے نافذ ہونے سے پہلے اپنے اپنے طے شدہ منصوبے تبدیل کرنے پر مجبور ہیں—فائل فوٹو: اے پی
لوگ نئے ضوابط کے نافذ ہونے سے پہلے اپنے اپنے طے شدہ منصوبے تبدیل کرنے پر مجبور ہیں—فائل فوٹو: اے پی

برطانوی حکومت کی جانب سے امیگریشن کی تعداد میں کمی کے لیے نئے قوانین کے اعلان سے جنوبی ایشیائی ممالک کے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، جو اب 2024 میں نئے ضوابط کے نافذ ہونے سے پہلے اپنے اپنے طے شدہ منصوبے تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں مقیم ایک 25 سالہ برطانوی پاکستانی ماہر قانون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم سب گھبراہٹ کا شکار ہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے برطانیہ میں مقیم شخص کے لیے فیملی کو اسپانسر کرنے کے لیے کم از کم آمدنی کی حد 18 ہزار 600 پاؤنڈز سے بڑھا کر 38 ہزار 700 پاؤنڈز کردی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں برطانیہ میں ابتدائی تنخواہیں 22 ہزار پاؤنڈز سے 26 ہزار پاؤنڈز سالانہ کے درمیان ہوتی ہیں، میں تقریباً 21 ہزار پاؤنڈز کما رہا ہوں جو کہ پچھلی حد (18 ہزار پاؤنڈز) سے کچھ زیادہ تھے، اب اچانک اس حد کو بڑھا دیا گیا ہے، میں راتوں رات 38 ہزار 600 پاؤنڈز نہیں کما سکتا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ میں 2024 کے موسم گرما میں اپنی پاکستانی منگیتر سے شادی کرنے کا ارادہ کر رہا تھا اور میرے خاندان کے تمام ٹکٹس، مقامات وغیرہ بک ہو چکے ہیں، اب مجھے اپنی سیونگز استعمال کرنی پڑیں گی اور اس عمل کو جلدی کرنا ہوگا تاکہ نئی پالیسی کے نفاذ سے پہلے میں اپنی شریک حیات کو یہاں لا سکوں۔

انہوں نے کہا کہ میرے بہت سے دوست گھبراہٹ کا شکار ہیں کیونکہ ان کی منگیتر پاکستانی ہیں اور جلد ہی ان کی شادی ہونے والی ہے، وہ نہیں جانتے کہ اس تبدیلی پر عمل کیسے کیا جائے گا اور وہ شدید پریشان ہیں۔

ایک 25 سالہ برطانوی سری لنکن خاتون نے بتایا کہ انہیں سری لنکا میں اپنی شادی میں تاخیر کرنی پڑے گی۔

انہوں نے کہا کہ میں نے پچھلے سال منگنی کی تھی اور ارادہ کیا تھا کہ ہم اگلے سال وہیں شادی کریں گے اور میرے منگیتر کو میرے ساتھ واپس یہاں آنا تھا، میرے گھر والے سب صدمے میں ہیں، اگر ہم شادی وہاں کر بھی لیتے ہیں تو میں اپنے منگیتر کو اسپانسر نہیں کر سکتی کیونکہ میں اتنی آمدنی نہیں کماتی، یہ کوئی معقول اضافہ نہیں ہے، یہ دوگنا اضافہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں شادی کو مؤخر کرنے پر مجبور ہوں، آپ جانتے ہیں کہ ایشیائی خاندانوں میں یہ کیسا ہوتا ہے، جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے اور عورتیں شادی نہیں کرتیں، لوگ باتیں بناتے ہیں۔

برطانوی حکومت کی نئی پالیسی امیگریشن قوانین اور فیسوں میں تبدیلیوں کے سلسلے میں تازہ ترین اقدام ہے، جولائی 2023 میں برطانوی حکومت نے ورک ویزا اور وزٹ ویزوں کی لاگت میں 15 فیصد اضافے کا اعلان کیا اور ترجیحی ویزا، اسٹڈی ویزوں اور اسپانسر شپ کے سرٹیفکیٹس کی لاگت میں تقریباً 20 فیصد اضافے کا اعلان کیا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں مائیگریشن آبزرویٹری کی ڈائریکٹر ڈاکٹر میڈلین سمپشن نے کہا کہ ہوم سیکرٹری کی جانب سے آمدنی کی حد کو 38 ہزار 700 پاؤنڈز تک بڑھانے کے فیصلے سے فردِ واحد پر سب سے زیادہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ اثرات کم آمدنی والے برطانوی شہریوں اور خاص طور پر خواتین اور کم عمر افراد پر پڑیں گے جو کم آمدنی کماتے ہیں۔

ویب سائٹ Free Movement.org نے اسے بہت سے خاندانوں کے لیے ایک ’تاریک دن‘ قرار دیا جو کم از کم آمدنی کی دوگنی سے زیادہ حد کو پورا کرنے سے قاصر ہوں گے اور شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والے وہ افراد بھی جنہیں اپنے خاندان کو برطانیہ لانے کی اہلیت کے بغیر برطانیہ آنا ہوگا۔

کینٹربری کے آرچ بشپ نے بھی خبردار کیا ہے کہ نئے ویزا قوانین کا خاندانی تعلقات پر ’منفی اثر‘ پڑے گا، جسٹن ویلبی نے کہا کہ حکومت امیگریشن میں کمی کے بارے میں جائز طور پر فکر مند ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ آمدنی کی زائد حد کے سبب بہت سے خاندان ایک ساتھ رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔

بیرسٹر رشید احمد نے کہا کہ پالیسی میں یہ تبدیلیاں مضحکہ خیز ہیں اور لوگ انہیں عدالت میں چیلنج کرنے پر غور کر رہے ہیں، خیراتی ادارے اور ایشیائی تنظیمیں مجھ سے یہ پوچھنے کے لیے فون کر رہی ہیں کہ وہ کیا کر سکتے ہیں کیونکہ وہ صدمے میں ہیں۔

بیرسٹر ردا فواد نے نشاندہی کی کہ جو لوگ شریک حیات اور بچوں کا ویزا اسپانسر کرنا چاہتے ہیں انہیں اس سے بھی زیادہ رقم ادا کرنی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ لوگ کسی حد تک امید کھو رہے ہیں، کوئی واضح ڈیڈ لائن نہیں ہے لیکن اپنے خاندان کو ویزا اسپانسر کرنے والوں کو 38 ہزار 700 پاؤنڈز سے زیادہ آمدنی ظاہر کرنی ہوگی۔

انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگ ڈر رہے ہیں کہ انہیں واپس جانا پڑے گا، دوسرے سوچ رہے ہیں کہ کیا اسے قانونی طور پر چیلنج کیا جائے گا، مجموعی طور پر یہ ہر ایک کے لیے انتہائی افسردہ کن صورتحال ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں