ریاست نے بلوچ مظاہرین کے ساتھ اچھا نہیں کیا، سیکریٹری این سی ایچ آر

قائمہ کمیٹی نے سرعام پھانسی کے بل کی مخالفت کردی— فائل/فوٹو: اے پی پی
قائمہ کمیٹی نے سرعام پھانسی کے بل کی مخالفت کردی— فائل/فوٹو: اے پی پی

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے سیکریٹری ملک کامران نے کہا ہے کہ ریاست نے بلوچ مظاہرین کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔

ڈان نیوز کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس سینیٹر ولید اقبال کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں سر عام پھانسی سمیت بلوچ مظاہرین کی گرفتاری کا معاملہ زیر بحث آیا، سینیٹر ولید اقبال کا کہنا تھا کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) نے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین سے ملاقات کی، کمیٹی نے معاملے کو اٹھایا ، ہم نے بلوچ مظاہرین کے ترجمان کو کال کی اور انہیں کمیٹی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ، لیکن بلوچ ترجمان نے کہا کہ ہم نہیں آ سکتے کیونکہ ہماری کوئی اور ملاقات طے ہے ، ماہ رنگ بلوچ اور حاجی صبغت اللہ کو اجلاس میں ملاقات کی دعوت دی گئی تھی۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ اس کیس پر کمیٹی میں بات کی جانی چاہیے، سیکریٹری این سی ایچ آر ملک کامران کا کہنا تھا کہ ریاست نے بلوچ مظاہرین کے ساتھ اچھا نہیں کیا، درخواست کرتے ہیں کہ کمیٹی جا کر ان مظاہرین سے ملاقات کرے۔

ملک کامران نے بتایا کہ گلگت بلستان ، سوات سے بھی طلبا یہاں آئے ہیں ، ان علاقوں کے نوجوانوں میں بہت بے چینی ہے ، اس کو دیکھنا ہو گا، سینیٹر ولید اقبال نے کہا کہ کمیٹی ارکان جا کر مظاہرین سے ملیں ، کمیٹی رولز کے مطابق چئیرمین سینیٹ سے اجازت لے کمیٹی کر وہاں جائے گی،کمیٹی بلوچ مظاہرین سے ملاقات کرے گی۔

سرعام پھانسی پاکستان کے بین الاقوامی مفاد میں نہیں ہے، سیکریٹری انسانی حقوق

سینیٹ اجلاس میں سر عام پھانسی کا معاملہ بھی زیر غور آیا، سیکریٹری انسانی حقوق نے بتایا کہ یورپی یونین نے جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنس (جی ایس پی)کی نظر ثانی پر سزائے موت کو معطل کرنے کہا ، امریکا کی ریاستوں میں سزائے موت ہے لیکن یورپ کے اکثر ممالک میں نہیں ہے، اقوام متحدہ اور یورپی یونین کہتی ہے ہے کہ سزا موت کو کم کیا جائے۔

سیکریٹری انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ سر عام پھانسی پاکستان کے بین الاقوامی مفاد میں نہیں ہے، سرعام پھانسی کے قومی اور بین الا قوامی اثرات ہیں، یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے، اس سے پاکستان کا دنیا میں تشخص خراب ہو گا، وزارت انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ سرعام پھانسی پاکستان کے بین الاقوامی مفاد میں نہیں ہے، بین الاقوامی ڈونرز کا سزائے موت اور سر عام پھانسی کے حوالے سے سخت مؤقف ہے

انہوں نے کہا کہ س وقت ہمارے قانون میں سرعام پھانسی کی اجازت ہے، سیکشن 22 انسداد دہشت گردی کے مطابق حکومت سزائے موت کے طریقے اور جگہ کا تعین کر سکتی ہے، اس کا مطلب ہے کہیں بھی سزائے موت دی جا سکتی ہے، یعنی سر عام پھانسی انسداد دہشت گردی میں موجود ہے

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سر عام پھانسی نہیں دینی چاہیے ، جیل رولز میں بھی اس کی اجازت نہیں، جیل رولز کہتے ہیں کہ 10،11 لوگ ہی پھانسی دیکھیں، سر عام پھانسی خلیجی ممالک میں ہوتی ہیں ، قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) کے سیکریٹری نے بتایا کہ لوگ منشیات پر سعودی عرب میں گرفتار ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ڈرگز لے کر جاتے ہیں ، سرعام پھانسی وہاں جرم کو روکنے کا کام نہیں کر رہی ہے،

سینیٹر مشاہد حسین سید نے سوال کیا کہ ضیا دور میں لاہور میں پپو کی سرعام پھانسی ہوئی تھی لیکن پاکستان میں آخری سر عام پھانسی کب ہوئی؟

سیکریٹری این سی ایچ آر نے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ نے سر عام پھانسی سے متعلق زینب ریپ کیس میں فیصلہ دیا، جابرانہ جرم کی سر عام پھانسی کی طرح جابرانہ سزا نہیں دی جا سکتی ، ایرانی منشیات کے خلاف بہت سرعام پھانسی دیتے تھے مگر ایران نے بھی منشیات پر سزائے موت ختم کر دی، ہم نے اپنی حکومت کو کہا ہے منشیات سے سزائے موت ختم کریں، کوئی شواہد نہیں ہیں کہ پھانسی دینے سے یہ جرم رک جائے گا، پاکستان نے 7 بین الاقوامی انسانی حقوق کنونشن پر دستخط کیے ہیں، دنیا کی توقع ہے کہ ہم سزا موت ختم کریں۔

سینیٹر ولید اقبال کا کہنا تھا کہ بطور چیئرمین انسانی حقوق کمیٹی بل کے خلاف بہت کالز آئیں، داخلہ کمیٹی نے بل کو انسانی حقوق کے تناظر میں نہیں دیکھا تھا، لوگوں کو سر عام پھانسی دینے کا معاملہ ایک بل پر تھا، داخلہ کمیٹی نے بل منظور کیا تھا ۔

بعد ازاں قائمہ کمیٹی نے سرعام پھانسی کے بل کی مخالفت کردی، قرارداد ولید اقبال نے پڑھی، قرارداد میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ کمیٹی سر عام پھانسی کی مخالفت کرتی ہے، کمیٹی سینیٹ سے درخواست کرتی ہے کہ وہ ایسا کوئی قانون منظور نہ کرے جس میں سر عام پھانسی ہو، انسانی حقوق کمیٹی کے 2 ارکان نے رائے دی کہ اس معاملے پر پہلے ریسرچ کی جائے۔

یاد رہے کہ 29 ستمبر 2023 کو سینیٹ نے ریپ ملزمان کو سرعام پھانسی دینے کے لیے بل کی منظوری دی تھی، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، وزارت امور خارجہ اور داخلہ کی مخالفت کے باوجود سینیٹ میں ریپ کے ملزموں کو سرعام پھانسی دینے کے لیے بل کو متعدد ترامیم کے ساتھ اکثریتی بنیاد پر منظور کر لیا گیا تھا۔

سینیٹر مشتاق احمد کی طرف سے تجویز کیے گئے ترمیمی بل میں پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کے سیکشن 375، 375 اے اور 376 سمیت کرمنل پروسیجر کوڈ کے شیڈول 2 میں ترامیم کی گئی۔

واضح رہے کہ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف دسمبر کے اوائل میں بلوچ خواتین وفاقی دارالحکومت لانگ مارچ کی صورت میں پہنچی تھیں۔

اس دوران لانگ مارچ کے شرکا کے خلاف اسلام آباد پولیس نے رات گئے کریک ڈاؤن کرتے ہوئے تمام بلوچ مظاہرین کو گرفتار کرلیا تھا۔

لانگ مارچ 20 دسمبر کو وفاقی دارالحکومت کے مضافات میں پہنچا تھا تاہم اسلام آباد پولیس نے مظاہرین کو نیشنل پریس کلب تک پہنچنے سے روکنے کے لیے شہر کے داخلی راستوں سمیت اہم راستوں پر ناکہ بندی کر دی تھی۔

اسلام آباد پولیس نے بلوچ مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا، پولیس نے آپریشن 26 نمبر چونگی اور نیشنل پریس کلب کے باہر کیا، اس دوران مظاہرین کے لگائے گئے ٹینٹ اور ساونڈ سسٹم اکھاڑ دئیے گئے۔

پولیسں نے واٹر کنین سے مظاہرین پر پانی بھی پھینکا، سیکٹر ایف سکیس میں آنسو گیس کی شیلنگ سے گھر میں موجود لوگ شدید متاثر ہوئے، بلوچ مظاہرین کے خلاف پولیس نے کریک ڈاؤن رات کے پچھلے پہر کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں