اسلام آباد پولیس کا کریک ڈاؤن، تمام بلوچ مظاہرین گرفتار

21 دسمبر 2023
پولیس نے مظاہرین کے لگائے گئے ٹینٹ,  ساونڈ سسٹم اکھاڑ دیے, گرفتار مظاہرین کو تھانہ آبپارہ، کوہسار، سیکرٹریٹ اور مارگلہ منتقل کردیا گیا—فوٹو:ڈان نیوز
پولیس نے مظاہرین کے لگائے گئے ٹینٹ, ساونڈ سسٹم اکھاڑ دیے, گرفتار مظاہرین کو تھانہ آبپارہ، کوہسار، سیکرٹریٹ اور مارگلہ منتقل کردیا گیا—فوٹو:ڈان نیوز

جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف بلوچ خواتین کی قیادت میں گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت پہنچنے والے لانگ مارچ میں شرکا کے خلاف اسلام آباد پولیس نے کریک ڈاؤن کرتے ہوئے تمام بلوچ مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔

لانگ مارچ گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت کے مضافات میں پہنچا تاہم اسلام آباد پولیس نے مظاہرین کو نیشنل پریس کلب تک پہنچنے سے روکنے کے لیے شہر کے داخلی راستوں سمیت اہم راستوں پر ناکہ بندی کر دی تھی۔

اسلام آباد پولیس نے بلوچ مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا، پولیس نے آپریشن 26 نمبر چونگی اور نیشنل پریس کلب کے باہر کیا، اس دوران مظاہرین کے لگائے گئے ٹینٹ اور ساونڈ سسٹم اکھاڑ دئیے گئے۔

پولیسں نے واٹر کنین سے مظاہرین پر پانی بھی پھینکا، سیکٹر ایف سکیس میں آنسو گیس کی شیلنگ سے گھر میں موجود لوگ شدید متاثر ہوئے، بلوچ مظاہرین کے خلاف پولیس نے کریک ڈاؤن رات کے پچھلے پہر کیا۔

کیپیٹل پولیس نے کریک ڈاؤن کرتے ہوئے تمام بلوچ مظاہرین کو گرفتار کرلیا، مجموعی طور پر 226 مظاہرین کو گرفتار کرکے تھانہ آبپارہ، کوہسار، سیکرٹریٹ اور مارگلہ منتقل کردیا گیا، خواتین مظاہرین کو تھانہ وومن منتقل کر دیا گیا۔

ترجمان اسلام آباد کیپیٹل پولیس نے دعویٰ کیا کہ مظاہرین کے درمیان متعدد نقاب پوش اور ڈنڈہ بردار موجود ہیں، مظاہرین کو ہائی سیکیورٹی زون میں داخلے سے روکنے کےلیے غیر مہلک طریقہ اختیار کیا جارہا ہے۔

ترجمان اسلام آبادپولیس نے کہا کہ طاقت کے استعمال سے مکمل گریز کیا گیا ہے، بزرگوں، عورتوں اور بچوں سے گذارش ہے کہ پرتشدد ہجوم کا حصہ نہ بنیں اور کسی کے بہکاوے میں مت آئیں، اسلام آباد کے شہریوں کی جان اور املاک کی حفاظت اسلام آباد پولیس کی اولین ترجیح ہے۔

جاری بیان میں کہا گیا کہ کسی بھی ایمرجنسی میں پکار 15 یا آئی سی ٹی 15 ایپ پر اطلاع دیں، 26 نمبر چونگی پر مظاہرین کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کیا گیا ہے، ایوب چوک پر بھی مظاہرین کی طرف سے پولیس پر پتھراؤ کیا گیا، پولیس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے متعدد مظاہرین کو گرفتار کر لیا ہے۔

اسلام آباد پولیس نے خبردار کیا کہ راستہ روکنے اور سڑکیں بند کرنے والوں کے خلاف ضابطہ کے مطابق قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی، آپ سے گذارش ہے کہ کسی بھی غیر قانونی اجتماع یا پر تشدد مظاہرے کا حصہ نہ بنیں، عورتوں اور بچوں کو پر تشدد مظاہروں سے دور رکھیں کسی بھی غیر معمولی سرگرمی کی اطلاع پکار 15 یا آئی سی ٹی 15 ایپ پر دیں۔

جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف بلوچ خواتین کی قیادت میں لانگ مارچ گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت کے مضافات میں پہنچا تھا تاہم اسلام آباد پولیس نے مظاہرین کو نیشنل پریس کلب تک پہنچنے سے روکنے کے لیے شہر کے داخلی راستوں سمیت اہم راستوں پر ناکہ بندی کر دی تھی۔

ابتدائی طور پر پولیس نے جناح ایونیو اور پریس کلب جانے والے دیگر راستوں کی ناکہ بندی کی، بعد ازاں انہوں نے سری نگر ہائی وے کو بھی بلاک کر دیا، جس سے وفاقی دارالحکومت سے گزرنے والی مصروف سڑک پر شدید ٹریفک جام ہوگیا۔

پولیس اور انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ ناکہ بندی لانگ مارچ کو روکنے کے لیے کی گئی جوکہ 6 دسمبر کو تربت میں محکمہ انسدادِ دہشت گردی کے اہلکاروں کے ہاتھوں ایک بلوچ نوجوان کے ’ماورائے عدالت قتل‘ کے چند روز بعد شروع ہوا۔

جناح ایونیو، ناظم الدین روڈ اور چائنہ چوک انڈر پاس سمیت پریس کلب کی طرف جانے والی سڑکوں پر پولیس کی نفری تعینات رہی۔

یہ سڑکیں عام لوگوں کے لیے بھی بند کر دی گئیں، اسی طرح پولیس نے اسلام آباد چوک اور چونگی نمبر 26 کی ناکہ بندی کی، ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ اس فیصلے کا مقصد مظاہرین کو شہر میں داخل ہونے سے روکنا تھا۔

ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی قیادت میں مظاہرین سے مذاکرات بھی ناکام رہے کیونکہ بار بار کی درخواستوں کے باوجود پولیس نے ان کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا، بعدازاں مظاہرین نے اسلام آباد چوک کے قریب دھرنا دیا۔

حکام نے بتایا کہ مظاہرین سے کہا گیا تھا کہ وہ ایف-9 پارک میں احتجاج کرلیں، انتظامیہ کے اعلیٰ حکام پارک میں ان سے ملاقات کریں گے، تاہم مظاہرین نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور کہا کہ احتجاج کے لیے مقام کا فیصلہ پولیس نہیں مظاہرین کریں گے۔

دریں اثنا سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر پوسٹ میں اے این پی کی سابق رہنما بشریٰ گوہر سمیت متعدد کارکنان کو پریس کلب کے باہر بلوچستان سے آنے والے مظاہرین سے ملاقات کے لیے انتظار کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ مظاہرین رات کے وقت موبائل کی فلیش لائٹس جلا کر سرد موسم میں نیشنل پریس کلب کے باہر سڑک پر دھرنا دے رہے ہیں، مظاہرین نے لانگ مارچ کے مطالبات کے حق میں نعرے لگائے۔

برطانوی پارلیمنٹ میں بھی لانگ مارچ کی گونج

دوسری جانب برطانیہ کی پارلیمنٹ میں بھی اِس لانگ مارچ کی گونج سنائی دی، برطانوی لیبر رکن پارلیمنٹ جان میکڈونل نے رواں ہفتے پارلیمنٹ میں ایک قرارداد پیش کی جس میں بلوچستان میں مارچ کی قیادت کرنے والی خواتین کی حمایت کا مطالبہ کیا گیا۔

’ایکس‘ پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ میں نے بلوچستان میں لانگ مارچ کی قیادت کرنے والی باہمت خواتین کی حمایت میں آج پارلیمنٹ میں ایک قرارداد پیش کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس لانگ مارچ کا مقصد لاپتا افراد اور اغوا اور قتل کے ان واقعات کی جانب توجہ مبذول کرانا ہے جن کا تعلق محکمہ انسداد دہشتگردی کی کارروائیوں سے ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں