جیل میں قید پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کے برطانوی جریدے دی اکانومسٹ میں شائع ایک مضمون سے عندیہ ملتا ہے کہ سابق وزیر اعظم کو شدید شکوک و شبہات ہیں کہ آیا آئندہ انتخابات ہوں گے یا نہیں۔

سابق وزیراعظم نے موجودہ منظر نامے میں عام انتخابات کے انعقاد کو تباہ کن اور مذاق قرار دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق برطانوی جریدے میں جمعرات کو شائع ہونے والے اس مضمون میں عمران خان نے ان الزامات کا اعادہ کیا کہ کس طرح امریکی حکومت کے دباؤ کے بعد ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت تبدیل ہوئی، انہوں نے 9 مئی کے فسادات کو ’جھوٹا پروپیگنڈا‘ قرار دیا۔

آرٹیکل کے اختتام پر ایڈیٹر کی جانب سے ایک نوٹ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا کہ حکومت پاکستان اور امریکی محکمہ خارجہ نے امریکی مداخلت کے الزامات کی تردید کی، اور حکومت عمران خان کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلا رہی ہے۔

اگرچہ پارٹی کے اندر ذرائع اس بات پر تبصرہ کرنے میں ہچکچا رہے ہیں کہ تحریر کو جیل کے اندر سے کس طرح شائع کیا گیا، انہوں نے اصرار کیا کہ یہ الفاظ واقعی عمران خان کے ہیں۔

کچھ مبصرین نے شکوک کا اظہار کیا کہ آیا یہ مضمون واقعی عمران خان کا ہے، لیکن بہت سے لوگوں نے نوٹ کیا کہ مضمون کا لہجہ اور مواد ان کے خیالات سے مطابقت رکھتا ہے۔

’اسٹیبلشمنٹ لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے کیلئے تیار نہیں‘

اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات بالکل بھی نہیں ہو سکتے، آرٹیکل میں کہا گیا کہ اگر الیکشنز ہوتے بھی ہیں تو اس طرح کے ’انتخابات تباہ کن اور ایک مذاق ثابت ہوں گے کیونکہ پی ٹی آئی کو انتخابی مہم چلانے کے اس کے بنیادی حق سے محروم کیا جا رہا ہے‘۔

آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ چاہے انتخابات ہوں یا نہ ہوں، مجھے اور میری پارٹی کو جس طرح سے نشانہ بنایا گیا ہے، اس سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ، سیکیورٹی ایجنسیاں اور سول بیوروکریسی لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہے۔

آرٹیکل میں، سابق وزیراعظم عمران خان نے پی ڈی ایم حکومت کی کارکردگی پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ’معیشت کو تباہ کر دیا، 18 ماہ کے اندر غیر معمولی افراط زر اور کرنسی کی قدر میں کمی ہوئی۔

انہوں نے ’قتل کی دو کوششوں‘ پارٹی رہنماؤں، کارکنان اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے اغوا، قید یا تشدد کا حوالے دیتے ہوئے لکھا کہ’بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مجھے دوبارہ اقتدار میں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اس لیے مجھے سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کے تمام طریقے استعمال کیے گئے۔

عمران خان نے لکھا کہ کچھ رہنماؤں کو دوسری نئی بننے والی سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا، اور دیگر کو زبردستی میرے خلاف جھوٹی گواہی دینے کے لیے بنایا گیا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان سب کے باوجود ان کی پارٹی مقبول ہے۔

بانی پی ٹی آئی نے نواز شریف کے بری ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے عدالتوں پر بھی ان الفاظ میں تنقید کی کہ ’ عدلیہ روزانہ ساکھ کھو رہی ہیں’۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ان کو یقین ہے کہ نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت وہ ان کی بریت کی حمایت اور آنے والے انتخابات میں اپنا وزن ان کے پیچھے ڈالے گا۔

جیل سے مضمون

عمران خان کا دی اکانومسٹ کا آرٹیکل جمعرات کو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا، پی ٹی آئی کے بہت سے حامیوں نے اس مضمون کی تعریف کی، کچھ نے ترجمہ شدہ اردو ورژن شیئر کیا۔

یہ بات قابل غور ہے کہ اپنے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان بین الاقوامی میڈیا پر لگاتار نظر آئے، لیکن قید کے بعد یہ سلسلہ رک گیا، کیونکہ بانی پی ٹی آئی تک رسائی ان کے وکلا اور خاندان کے افراد تک محدود ہو گئی۔

لیکن حالیہ مہینوں میں تحریک انصاف نے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے غیر روایتی طریقے تلاش کیے ہیں، جیسا کہ حالیہ دنوں میں ورچوئل جلسہ کیا گیا، جس میں عمران خان کی آواز میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے تیار کردہ ایک خطاب چلایا گیا۔

عمران خان کے الفاظ حالیہ مہینوں میں دوسرے طریقوں سے بھی جیل سے باہر آئے، انہوں نے حال ہی میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خط لکھا، جس میں پارٹی کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی درخواست کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں