اسلام آباد کی احتساب عدالت نے تعمیراتی منصوبوں میں خورد برد کیس میں فواد چوہدری کا مزید 3 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق ڈیوٹی جج شاہ رخ ارجمند نے سماعت کی، پنڈ دادن خان تا جہلم ترقیاتی منصوبے میں مالی فراڈ کے مقدمے پر فواد چوہدری کو احتساب عدالت میں 3 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد پیش کیا گیا۔

یاد رہے کہ نیب اب تک مجموعی طور پر فواد چوہدری کا 23 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کر چکا ہے، نیب انکوائری کے دوران ملزم کا زیادہ سے زیادہ 30 دن کا جسمانی ریمانڈ لے سکتا ہے۔

سماعت شروع ہونے پر نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیے کہ 2 افراد کو طلبی کے نوٹس جاری کیے تھے لیکن وہ پیش نہیں ہوئے، ہمیں انکوائری کے لیے مزید وقت درکار ہے ، بعد ازاں انہوں نے فواد چوہدری کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔

سابق وفاقی وزیر کے وکیل عامر عباس ایڈووکیٹ نے کہا کہ جو بھی آرڈر ہوتا ہے اس میں لکھا جائے کہ جج ڈیوٹی پر ہیں پر کورٹ میں موجود نہیں، اس منصوبے میں جب ٹینڈر ہوا ہی نہیں تو الزام کیسا؟ میرے 31 سالہ پریکٹس میں ایسا کوئی کیس کبھی آیا ہی نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کسی کو ذاتی حیثیت میں کوئی پیسے دیے گئے ہیں تو گواہ لے آئیں، اگر کسی کاذاتی معاملہ ہے تو 420 کا کیس کریں نیب کیسے کسی کو گرفتار کر سکتا ہے؟ یہ کون سی تفتیش میں ہوتا ہے کہ ابتدائی مراحل میں ہی کنفرنٹ کیا جائے؟ پچھلی حکومت میں ایک ترمیم کے ذریعے جسمانی ریمانڈ کو 14 دن سے بڑھا کر 30 دن کر دیا گیا۔

’سابق وزیر کو الیکشن سے باہر کرنے کیلئے 30 دن کا ریمانڈ پورا کیا جا رہا ہے‘

عامر عباس ایڈووکیٹ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج کہتے ہیں کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی بنی ہے، اس کی کوئی این او سی ہے تو دکھا دیں، ہاؤسنگ سوسائٹی کی کوئی فائل ہی دکھا دیں، سابق وزیر کو الیکشن کے عمل سے باہر کرنے کے لیے 30 دن کا ریمانڈ پورا کیا جا رہا ہے۔

فواد چوہدری کے وکیل نے کہا کہ یہ ایک روپے کا سرکاری خزانے کو نقصان ثابت نہیں کر سکے، اگر کنٹریکٹرز نے 18 لاکھ دیے ہیں تو اسے بدلے میں کیا ملا؟ الزام تو کوئی بھی لگا سکتا ہے مگر مقصد صرف فواد چوہدری کو اندر رکھنا ہے تاکہ 30 دن بعد فواد جانے ضمانت جانے۔

وکیل صفائی نے دلائل دیے کہ ڈیوٹی جج کے سامنے جسمانی ریمانڈ کی ایک سمری آتی ہے اسے دیکھنا ہوتا ہے، پہلے کال اپ نوٹس میں صرف اثر و رسوخ استعمال کرنے کا الزام تھا اب الزامات بڑھتے چلے جا رہے ہیں، یہ کوئی اندھے قتل کا کیس نہیں کہ نئے حقائق سامنے آرہے ہیں، جسمانی ریمانڈ کی توسیع ہوتی ہے، نیا ریمانڈ نہیں لیا جاتا اور توسیع کے لیے ٹھوس وجوہات ہونی چاہیے۔

عامر عباس ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ نیب ایک ہومیوپیتھیک ٹائپ پروپوزیشن ہے۔

’ہمارے ساتھ ایسا سلوک نہ کیا جائے‘

بعد ازاں فواد چوہدری روسٹرم پر آئے، انہوں نے کہا کہ نیب پراسیکیوٹر کے خلاف توہین عدالت دائر کرنا چاہتا ہوں، نیب پراسیکیوٹر نے جھوٹ بولا کہ ایک کنٹریکٹ ہوا، دوسرا جھوٹ یہ بولا کہ میرے اکاؤنٹ ملے ہیں، انہوں نے ایزی پیسہ اکاؤنٹ کو ڈسکور کر لیا۔

سابق وزیر کا مزید کہنا تھا کہ مجھے پتہ ہے کیسے دور سے گزر رہے ہیں لیکن ہمارے ساتھ ایسا سلوک نہ کیا جائے، ہم الیکشن سے پہلے باہر نہیں آئیں گے، کون سا ضمانت ہو جانی ہے لیکن اس طرح کے کیسز نہ بنائے جائیں۔

یاد رہے کہ 9 جنوری کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے جہلم کے تعمیراتی منصوبوں میں خورد برد کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما و سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا 3 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔

اس سے قبل 5 جنوری کو سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور ہوا تھا۔

خیال رہے کہ 30 دسمبر کو عدالت نے پنڈ دادن خان، جہلم دو رویہ سڑک کی تعمیر، زمین کی خریداری میں خرد برد سے متعلق کیس میں سابق وفاقی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما فواد چوہدری کا 6 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا تھا۔

عدالت نے حکم دیا کہ فواد چوہدری کو 5 جنوری کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے۔

20 دسمبر کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے پنڈ دادن خان، جہلم دو رویہ سڑک کی تعمیر، زمین کی خریداری میں خرد برد سے متعلق کیس میں سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا 10 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں نیب کی تحویل میں دے دیا تھا۔

16 دسمبر کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے جہلم پنڈدادن روڈ کیس میں سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے جبکہ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے وارنٹ تعمیل کروانے کی اجازت دے دی تھی۔

واضح رہے کہ 9 مئی کو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو قومی احتساب بیورو نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیرا ملٹری رینجرز کی مدد سے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کرلیا تھا جس کے بعد ملک میں احتجاج کیا گیا اور اس دوران توڑ پھوڑ اور پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔

احتجاج کے بعد فواد چوہدری سمیت پی ٹی آئی کے کم از کم 13 سینئر رہنماؤں کو مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس کے تحت گرفتار کر لیا گیا تھا۔

رہائی کے بعد 24 مئی کو فواد چوہدری نے پی ٹی آئی چھوڑ کر سابق وزیراعظم عمران خان سے اپنی راہیں جدا کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر جاری اپنے ایک بیان میں فواد چوہدری نے کہا تھا کہ جیسا کہ میں نے 9 مئی کے واقعات کی واضح الفاظ میں مذمت کی تھی، اب میں نے سیاست سے وقفہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، اس لیے میں پارٹی عہدے سے استعفیٰ دے کر عمران خان سے راہیں جدا کر رہا ہوں۔

تاہم جون میں فواد چوہدری نے جہانگیر خان ترین کی قائم کردہ نئی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔

بعد ازاں، سابق وفاقی وزیر و سابق رہنما پاکستان تحریک انصاف فواد چوہدری کو اسلام آباد سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں