سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو ’بلے‘ کا انتخابی نشان واپس کرنے کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، جس کے بعد پی ٹی آئی ’بلے‘ کے انتخابی نشان سے محروم ہوگئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ فیصلے کی کاپی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دیں گے۔

تینوں ججز کے متفقہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 14 تحریک انصاف کے اراکین نے انتخابات کے بارے میں شکایت کی، اراکین نے پی ٹی آئی سے تعلق ثابت کیا، الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف کئی شکایات ملیں، الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کا فیصلہ سنایا اور الیکشن کمیشن کے فیصلے میں پی ٹی آئی کوانتخابی نشان کے لیے نااہل قرار دیا گیا۔

پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی، پشاور ہائی کورٹ کو لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا مقدمے کے بارے میں نہیں بتایا گیا، الیکشن کمیشن تحریک انصاف کو 24 مئی 2021 سے انتخابات کروانے کا کہہ رہا ہے اور اس نے 13 دوسری سیاسی جماعتوں کے خلاف بھی انتخابات نہ کروانے پر احکامات دیے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ ای سی پی کو انٹراپارٹی انتخاب کے جائزے کا اختیار نہیں، بادی النظر میں کوئی شواہد نہیں کہ پی ٹی آئی نے شفاف الیکشن کرائے، پی ٹی آئی کے پاس آئین کے مطابق اراکین کو نکالنے کا ثبوت نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پی ٹی آئی کو الیکشن کمیشن ٹارگٹ کر رہا ہے۔

پی ٹی آئی امیدوار آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں گے، بیرسٹر علی ظفر

فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے سے مایوسی ہوئی ہے تاہم تحریک انصاف کی جیت ہوگی اور اگلی حکومت بنائیں گے۔

انہوں نے اعلان کیا کہ پی ٹی آئی امیدوار آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں گے۔

اس موقع پر پی ٹی آئی کے دوسرے رہنما بیرسٹر گوہر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی میں جائیں گے، 12 کروڑ ووٹرز میں سے 10 کروڑ پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں جبکہ بلا رہے نہ رہے، عوام تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔

فیصلے بعد پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کا میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیا ہے، اس فیصلے سے پاکستان کی جمہوریت کے لیے نئی سمت کا تعین ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ تفصیلی فیصلے سے پاکستان کی سیاست میں انٹراپارٹی انتخابات کی اہمیت سامنے آئے گی اور تمام سیاسی جماعتوں کو اب اس عمل میں شامل ہونا پڑے گا۔

سماعت

قبل ازیں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 3 رکنی بینچ کیس نے سماعت کی۔

پی ٹی آئی کے وکیل سینٹر علی ظفر، حامد خان اور الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان سپریم کورٹ پہنچ گئے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پشاور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ گیا ہے۔

پی ٹی آئی وکیل حامد خان نے کہا کہ فیصلہ پڑھا ہے، پشاور ہائی کورٹ نے بہترین فیصلہ لکھا ہے۔

دریں اثنا حامد خان کے بلانے پر بیرسٹر علی ظفر دلائل کے لیے روسٹرم پر آگئے، انہوں نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آخری دن ہے، وقت کی قلت ہے اس لیے جلدی دلائل مکمل کرنے کی کوشش کروں گا۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس بھی وقت کم ہے کیونکہ فیصلہ بھی لکھنا ہے۔

الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے، وکیل پی ٹی آئی

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ 2 سوالات ہیں کہ کیا عدالتی دائرہ اختیار تھا یا نہیں؟ کیا الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی الیکشن کی چھان بین کا اختیار ہے یا نہیں؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نہ تو آئین اور نہ ہی الیکشن ایکٹ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن کے جائزہ کی اجازت دیتے ہیں، انتخابی نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے نہیں روکا جاسکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 17 دو طرح سیاسی جماعتیں بنانے کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ بھی آرٹیکل 17 دو کی تفصیلی تشریح کر چکی ہے، انتخابات ایک انتخابی نشان کے ساتھ لڑنا سیاسی جماعت کے حقوق میں شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انٹراپارٹی انتخابات کی بنیاد پر انتخابی نشان سے محروم کرنا آرٹیکل 17 دو کی خلاف ورزی ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک برتا ہے، الیکشن کمیشن نے بلے کا نشان چھین کر بظاہر بدنیتی کی ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے ساتھ جانبدارانہ اور بدنیتی پر مبنی سلوک کیا، بنیادی سوال سیاسی جماعت اور اس کے ارکان ہے اس لیے شفاف ٹرائل کے بغیر کوئی فیصلہ ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں جو شفاف ٹرائل کا حق دے سکے، الیکشن کمیشن میں کوئی ٹرائل ہوا ہی نہیں، پی ٹی آئی کے کسی رکن نے انٹرپارٹی انتخابات چیلنج نہیں کیے، انٹراپارٹی انتخابات صرف سول کورٹ میں ہی چیلنج ہوسکتے تھے، الیکشن کمیشن کے پاس سوموٹو اختیار نہیں کہ خود فیصلہ بھی کرے اور اپیلیں بھی۔

انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات جماعت کے آئین کے مطابق کرائے گئے ہیں، پی ٹی آئی نے پہلے 2022 میں انٹرا پارٹی انتخابات کرائے جو الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیے، الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا حکم دیا، خدشہ تھا پی ٹی آئی کو انتخابات سے باہر نہ کر دیا جائے اس لیے عملدرآمد کیا، سپریم کورٹ اسی دوران 8 فروری کو انتخابات کا حکم دے چکی تھی، 2 دسمبر کو پی ٹی آئی نے دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمشین میں پارٹی انتخابات کے خلاف 14 درخواستیں دائر ہوئیں، ہمارا بنیادی موقف تھا کہ درخواست گزار پارٹی ممبر نہیں ہیں، الیکشن کمیشن نے اپنے 32 سوالات بھیجے جن کا تحریری جواب دیا، جواب ملنے کے بعد الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیکر انتخابی نشان واپس لے لیا۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمشین کے حکم نامہ میں تسلیم شدہ ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے، الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کا ذکر نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے فیصلے کی جو وجوہات دی ہیں وہ عجیب ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابات کو درست کہا چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی غلط قرار دی۔

انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا تعیناتی درست نہیں اس لئے انتخابات تسلیم کریں گے نہ ہی نشان دیں گے، کل مخدوم علی خان نے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات کیے تھے، مخدوم علی خان کا نکتہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا تھا۔

ملک کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی جمہوریت ہونی چاہیے، چیف جسٹس

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جمہوریت ملک کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے، بنیادی سوال جمہوریت کا ہے، پارٹی آئین پر مکمل عملدرآمد کا نہیں، کم از کم اتنا تو نظر آئے کہ انتخابات ہوئے ہیں، اکبر ایس بابر بانی رکن تھے، وہ پسند نہیں تو الگ بات ہے لیکن ان کی رکنیت تو تھی، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ درخواست گزار پارٹی رکن نہیں تھے، اکبر ایس بابر نے اگر استعفیٰ دیا یا دوسری پارٹی میں گئے تو وہ بھی دکھا دیں۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس وقت نوٹس کیا جب وہ حکومت میں تھی، الیکشن ایکٹ کی آئینی حیثیت پر تبصرہ نہیں کریں گے کیونکہ کسی نے چیلنج نہیں کیا، اِس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کر رہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے اپنا جاری کردہ شیڈیول فالو کیا تھا؟ کیا انتخابات شفاف تھے؟ کچھ واضح تھا کہ کون الیکشن لڑ سکتا ہے کون نہیں؟

انہوں نے ریمارکس دیے کہ آپ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتے ہیں، اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈ دینی ہوگی، الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی، شکایات ملنے پر کارروائی کی۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایسی کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی، تمام سوالات کے جواب دستاویزات کے ساتھ دوں گا۔

ہر کوئی اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرتا ہے، اصل نام فوج ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ انتخابی نشان کیا ہوتا ہے ہمیں معلوم ہے،اگر ایوب خان کے دور کے بعد کی بات کریں تو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی ایک تاریخ ہے، پیپلزپارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان واپس لیا گیا، پھر پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین بنی، ایک اور سیاسی جماعت مسلم لیگ نے بھی ایسا ہی وقت دیکھا لیکن اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے، آج کی اور تب کی صورتحال میں بہت فرق ہے، تب سپریم کورٹ کے ججز نے پی سے او کے تحت حلف اٹھایا تھا، آج تحریک انصاف کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں۔

انہوں نے بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ ‏بانی پی ٹی آئی جیل میں ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں، کل وہ باہر آ کر کہہ دیں کہ کسے منتخب کر دیا تو کیا ہوگا؟

‏چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن پر الزام لگاتی ہے تو ان کی حکومت میں کون تھا؟ کیا پی ٹی آئی نے خود چیف الیکشن کمشنر کا تقرر نہیں کیا؟ پی ٹی آئی اپنی حکومت والی اسٹیبلشمنٹ کا ذکر نہیں کرتی، اس وقت سب ٹھیک تھا، اب پی ٹی آئی کہتی ہے سب ادارے ان کے خلاف ہوگئے؟ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بالکل واضح اور سخت ترین رہا، پی ٹی آئی اگر صرف الزام تراشی اور سیاسی ڈرامہ کرنا چاہتی ہے تو ادارے کمزور ہوں گے۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ آج کل ہر کوئی اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرتا ہے، اصل نام فوج ہے، ہمیں کھل کر اور مکمل بات کرنی چاہیے، میں آئینی اداروں کی عزت کرتا ہوں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق ہر سیاسی جماعت نے پارٹی انتخابات کے 7 دن میں سرٹیفکیٹ دینا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ سرٹیفکیٹ پارٹی آئین کے مطابق انتخابات سے مشروط ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انٹراپارٹی انتخابات کی سکروٹنی کا اختیار نہیں ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اصل مسئلہ ہی دائرہ اختیار کا بنا ہوا ہے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ یا تسلیم کر لیں جمہوریت چاہیے یا نہیں؟ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ گھر میں جمہوریت چاہیے باہر نہیں چاہیے، آپ کو سیاست چاہیے جمہوریت نہیں چاہیے، سیاست تو ہے ہی جمہوریت، الیکشن کمیشن کا ایک ہی دکھڑا ہے کہ پارٹی انتخابات کرا لو۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی الیکشن کرائے لیکن وہ الیکشن کمیشن مانے نہیں۔

آپ کو سیاست چاہیے جمہوریت نہیں چاہیے، سیاست تو ہے ہی جمہوریت، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 14 درخواست گزاروں کو الیکشن کیوں نہیں لڑنے دیا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ کسی کو اعتراض ہے تو سول کورٹ چلا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم جمہوریت کیساتھ کھڑے ہیں چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا باہر ہو۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کوئی پٹواری انٹراپارٹی انتخابات کا فیصلہ نہیں کر سکتا کیونکہ اسے اختیار نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو سیاست چاہیے جمہوریت نہیں چاہیے، سیاست تو ہے ہی جمہوریت، آپ کہتے ہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر الیکشن کمیشن 2 لاکھ جرمانہ کر سکتا ہے لیکن ساتھ ہی آپ کہتے ہیں باقی اختیار الیکشن کمیشن کے پاس نہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کوئی پارٹی الیکشن کرائے بغیر سرٹیفکیٹ دیدے تو کیا الیکشن کمیشن کچھ نہیں کر سکتا؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں پارٹی انتخابات کی شفافیت کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ہے، انتخابات نہ کرانے پر الیکشن کمیشن 2 لاکھ روپے تک جرمانہ کر سکتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی انتخابات کروا کر جرمانے کی اسٹیج سے تو آگے نکل چکی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کون ہیں؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بیرسٹر گوہر پارٹی کے چیئرمین ہیں۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ بیرسٹر گوہر کا اپنا الیکشن ہی سوالیہ نشان بن گیا ہے، بانی پی ٹی آئی سرٹیفکیٹ دیتے تو اور بات تھی، بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیاکہ سرٹیفکیٹ پارٹی سربراہ نے دینا ہوتا ہے، سابق سربراہ نے نہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ پارٹی انتخابات کے وقت چیئرمین کون تھا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ پارٹی انتخابات ہوئے تو چیئرمین عمران خان تھے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں ہے تو پھر کس کا ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اکبر ایس بابر ممبر نہیں ہیں انہیں نکال دیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ ہمیں دکھائیں ریکارڈ سے وہ ممبر نہیں، بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ میں آپ کو وہ دستاویز دکھا دیتا ہوں۔

کون سی سیاسی جماعت کیش میں فیس وصول کرتی ہے؟ چیف جسٹس

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ سرٹیفکیٹ اسی وقت مل سکتا ہے جب انتخابات پارٹی آئین کے مطابق ہوئے ہوں۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کا آئین کہتا ہے چیئرمین کا الیکشن 2 سال باقی 3 سال بعد ہوں گے، یہاں تک تو پارٹی آئین کی خلاف ورزی ثابت ہوگئی۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میرا بیان یہی ہے اکبر ایس بابر ممبر نہیں ہیں، مجھے ہدایات یہی ملی ہیں وہ ممبر نہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ آپ کو ہدایات کون دے رہا ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ مجھے پارٹی سربراہ ہدایات دے رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جنہوں نے خود 2 سال پہلے پارٹی جوائن کی وہ ہدایت دے رہے ہیں؟ برطانیہ میں جتنے وزرائے اعظم آئے وہ ایک ہی جماعت کے لوگ تھے اور اپنی ہی جماعت سے ان کو مخالفت ہوئی۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی اپنی ویب سائٹ پر شائع کیے؟ کس طرح مخصوص لوگوں کو علم ہوا کہ یہ کاغذات نامزدگی ہیں اور کب جمع کرانا ہیں؟

اس دوران کمرہ عدالت میں چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ جس کے پاس لیپ ٹاپ ہے وہ تحریک انصاف کی ویب سائٹ کھولیں اور پاکستان تحریک انصاف کی ویب سائٹ پر کاغذاتِ نامزدگی چیک کریں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جب الیکشن ہو گیا تو کاغذات نامزدگی ہٹا دیے گئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ہماری سپریم کورٹ کی ویب سائٹ دیکھیں ہمارے تو انتخابات نہیں ہوتے، ہماری ویب سائٹ پر اگر ہم نوکری کا اشتہار دیتے ہیں تو موجود ہوگا، کچھ تو کاغذ کا ٹکڑا دکھا دیں کہ امیدواروں سے فیس کی یا کاغذات نامزدگی کا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ فیس کیش میں وصول کی گئی، اِس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کون سی سیاسی جماعت کیش میں فیس وصول کرتی ہے؟ آپ کا الیکشن شیڈول سر آنکھوں پر اس کی تعمیل دکھا دیں۔

پی ٹی آئی ارکان کو ہی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی، جسٹس محمد علی مظہر

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آپ کی پارٹی کا تو نعرہ ہی یہ ہے کہ لوگوں کو بااختیار بنانا ہے، لیکن یہاں نظر نہیں آ رہا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم نے جو بھی غلطیاں کی اس کے لیے 20 دن کا ٹائم دیا گیا۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ساڑھے 3 سال پہلے کی بات ہے الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ الیکشن کروائیں، آپ کی طرف سے جواب دیا گیا کہ کورونا ہے، ایک سال کا ٹائم دیا گیا، الیکشن کمیشن نے تو بہادری دکھائی کہ (پی ٹی آئی کو) حکومت میں نوٹس دیا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ صرف ہمیں نہیں الیکشن کمیشن نے سب کو نوٹس بھیجا تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جو شیڈیول پی ٹی آئی نے دیا ہے وہ عملی طور پر ممکن نہیں لگ رہا، اگر تو قانون کے بجائے مرضی سے فیصلے کرنے ہیں تو میں تسلیم نہیں کر سکتا، سب سیاسی جماعتوں کیساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے، الیکشن کمیشن نے بتایا کہ کسی اور پارٹی کے انتخابات پر اعتراض نہیں آیا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی الیکشن شیڈیول پر اعتراض کا جواب دوں گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جج صاحب نے اعتراض نہیں کیا سوال کیا ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی انتخابات کا شیڈیول پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے، اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی ارکان کو ہی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی۔

پی ٹی آئی کو زیادہ وقت چاہیے تو پہلے کہا تھا فیصلہ معطل کرنا پڑے گا، چیف جسٹس

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ قانون کے مطابق انٹرپارٹی انتخابات کا سرٹیفکیٹ دینا لازمی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بنیادی بات سرٹیفکیٹ نہیں الیکشن ہونا ہیں، سرٹیفکیٹ نہ ہونا مسئلہ نہیں الیکشن نہ ہونا مسئلہ ہے، پی ٹی آئی پارٹی انتخابات سے گھبرا کیوں رہی ہے؟ ہمیں کوئی دستاویزات دکھا دیں کہ انتخابات ہوئے ہیں، سرٹیفکیٹ تو الیکشن کے بغیر بھی آ سکتا ہے۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ اگر پی ٹی آئی کو زیادہ وقت چاہیے تو پہلے کہا تھا کہ فیصلہ معطل کرنا پڑے گا، عدالت کو جو تشویش ہے پہلے اسے دور کریں، پھر گلہ نہ کیجئے گا کہ فیصلہ کیوں معطل کیا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عمران خان نے کس کو چیئرمین نامزد کیا وہ اگلے ہی دن اعلان کر دیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عمران خان کی نامزدگی کا لیٹر کہاں ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عمران خان کی نامزدگی کا کوئی خط نہیں ہے، میڈیا پر اعلان کیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسے کیسے تسلیم کر لیں کہ عمران خان نے کس کو نامزد کیا تھا، آپ پرانے اور حامد خان بانی رکن ہیں انہیں کیوں نہیں نامزد کیا گیا؟ کل عمران خان کہہ دیں میں نے نامزد نہیں کیا تھا پھر کیا ہوگا؟

بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ 29 نومبر کو فیڈرل الیکشن کمیشن کو نامزد کیا گیا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے تحریک انصاف دستاویزات کے معاملے میں کافی کمزور ہے، ہم جو دستاویزات مانگتے ہیں آپ کے پاس ہوتا ہی نہیں ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پارٹی انتخابات میں اور کوئی پینل آیا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ایک ہی پینل تھا وہ جیت گیا، پینل میں 15 لوگ تھے جو منتخب ہوئے۔

نیاز اللہ نیازی کی چیف جسٹس سے تلخ کلامی

چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ نیاز اللہ نیازی کیا پی ٹی آئی کے ممبر ہیں؟

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ جی نیاز اللہ نیازی پی ٹی آئی کے 2009 سے ممبر ہیں، نیاز اللہ نیازی کو چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دیکھیں ناں سب نئے نئے چہرے آ رہے ہیں، پرانے لوگ کہاں ہیں؟ عمر ایوب کے پینل نے کاغذات یکم دسمبر کو جمع ہوا۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ نئے لوگوں کی شمولیت شکوک پیدا کرتی ہے، بااثر افراد جماعت پر قبضہ کر لیتے ہیں۔

اس پر نیاز اللہ نیازی نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ میری تزلیل کر رہے ہیں، یہ باتیں نہ کریں نئے چہرے کیسے آئے، آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، میرا بیٹا آپ کے پاس لا کلرک کا انٹرویو دینے آیا، آپ نے اُس سے بھی پی ٹی آئی سے متعلق سوالات پوچھے۔

نیاز اللہ نیازی نے مزید کہا کہ میں 3 سال تک آپ کے سامنے پیش ہوتا رہا، مجھے علم ہے میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔

اِس پر چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا ہم انہیں نوٹس جاری کریں؟ اگر ایسے کرنا ہے تو ہم اٹھ کر چلے جاتے ہیں، ہم تو سوال سمجھنے کے لیے پوچھتے ہیں، اگر ایسا رویہ رکھنا ہے تو ہم کیس ہی نہیں سنتے، مجھے معلوم ہی نہیں کہ اِن کا کوئی بیٹا بھی ہے، اگر آپ الزام لگا کر اداروں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو کریں۔

بیرسٹر علی ظفر نے نیاز اللہ نیازی کے رویے پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ سے اظہارِ معذرت کیا، دریں اثنا عدالت نے کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا۔

اکبر ایس بابر الیکشن لڑنا چاہتے تو ہمیں اعتراض نہ ہوتا، وکیل پی ٹی آئی

وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو دلائل کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ کوشش کروں گا ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں۔

بیرسٹر علی ظفر نے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کاغذات نامزدگی جمع ہونا پہلا اور انتخابات کا مقام دوسرا مرحلہ تھا، پی ٹی آئی چاہتی تھی کہ پولنگ اسلام آباد میں ہو، شادی ہال سمیت کوئی بھی اپنی جگہ دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ جہاں الیکشن ہوا کیا وہاں آپ کا دفتر ہے؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جس گراؤنڈ میں الیکشن ہوا وہ ہمارے دفتر کےساتھ ہے، الیکشن کمیشن نے آئی جی پولیس کو پشاور میں سیکیورٹی فراہمی کے لیے خط لکھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے پولنگ کا مقام اور دیگر تفصیلات مانگی تھیں کیا وہ بتائی گئیں؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے اس خط کا جواب نہیں دیا لیکن پولیس کو آگاہ کر دیا تھا، میڈیا کے ذریعے پولنگ کے مقام سے بھی آگاہی فراہمی کر دی تھی، جو پینل سامنے آئے ان کی تفصیلات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں، اکبر ایس بابر جب آئے تو وقت ختم ہوچکا تھا، اکبر ایس بابر نے آج تک اپنا پینل ہی نہیں دیا کہ وہ کہاں سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے، اکبر ایس بابر الیکشن لڑنا چاہتے تو ہمیں اعتراض نہ ہوتا۔

پارٹی آئین میں کہیں بلامقابلہ انتخاب کا نہیں لکھا، چیف جسٹس

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ پارٹی آئین میں کہاں لکھا ہے الیکشن اکیلا شخص نہیں لڑ سکتا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ پارٹی آئین میں پینل انتخابات کا ذکر ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارٹی آئین کے مطابق چیئرمین کا انتخاب ہو ہی ووٹ کے ذریعے ہو سکتا ہے، بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ کوئی مدمقابل نہ ہو تو انتخاب بلامقابلہ تصور ہوگا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارٹی آئین میں کہیں بلامقابلہ انتخاب کا نہیں لکھا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ووٹنگ ہوتی ہی تب ہے جب ایک سے زیادہ امیدوار ہوں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر چیئرمین کے واحد امیدوار کو ہی لوگ پسند نہ کرتے ہوں تو کیا ہوگا، اس طرح تو آپ آمریت کی جانب جا رہے ہیں، اگر ایک ووٹ بھی نہ ڈلے تو سینٹر بھی منتخب نہیں ہوسکتا؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ میں بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چیئرمین، سیکریٹری جنرل سمیت سب لوگ ایسے ہی آگئے یہ تو سلیکشن ہوگئی، پی ٹی آئی نے الیکشن کیوں نہیں کرایا؟ آخر مسئلہ کیا تھا؟

اس دوران بیرسٹر علی ظفر نے مسلم لیگ (ن) کے بلامقابلہ انتخابات کا نوٹیفکیشن پیش کر دیا، انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) میں بھی سب بلامقابلہ انتخابات ہوئے تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بلامقابلہ انتخابات پارٹیوں میں ہوتے رہتے ہیں، اس پر تبصرہ نہیں کریں گے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اے این پی کے ضلعی صدور بھی بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے، اے این پی کو آج جرمانہ کرکے پارٹی انتخابات جنرل الیکشن کے بعد کرانے کا کہا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معاملہ فنڈنگ کا بھی 2014 سے پڑا ہے جو آپ چلنے نہیں دیتے، ملک چلانے والے کون ہوتے ہیں عوام کو پتا ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کل بیرسٹر گوہر وزیراعظم بن گئے تو کیا انہیں پارٹی کے لوگ جانتے ہوں گے؟ بغیر انتخاب بڑے لوگ آ جائیں تو بڑے فیصلے بھی کریں گے، ہوسکتا ہے آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی کرنا پڑے، لوگ اپنے منتخب افراد کو جانتے تو ہوں۔

پرانے لوگوں کو ساتھ رکھیں تو انہیں تجربہ ہوتا ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی انتخابات میں کسی نے ووٹ نہیں ڈالا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ مدمقابل کوئی نہیں تھا اس لیے ووٹنگ نہیں ہوئی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کورونا کے دوران بھی انتخابات ہوسکتے تھے، اگر کوئی پینل نہ سامنے آتا تو ایسے ہی بلامقابلہ الیکشن ہوجاتے، جواب میں بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ماضی کو واپس کیا جا سکتا تو ضرور کر دیتے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے 2021 میں انتخابی نشان واپس لینے کا خط لکھا تھا، پرانے لوگوں کو ساتھ رکھیں تو انہیں تجربہ ہوتا ہے، اکبر ایس بابر کی دستاویزات کے مطابق پی ٹی آئی کے 12 بانی ارکان تھے، پی ٹی آئی نے شاید بعد میں آئین بدل لیا۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ یہ تو ثابت ہوگیا کہ اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے بانی ممبر تھے، اکبر بابر کو پارٹی سے نکالنے کی دستاویزات دکھا دیں، پی ٹی آئی پر کوئی باہر سے تو نہیں حملہ کر رہا نا، چیئرمین بننے کا حق حامد خان کا زیادہ ہے یا بیرسٹر گوہر کا؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ‏بلامقابلہ انتخاب کیسے ہوا؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) میں مریم نواز سمیت سب بلامقابلہ منتخب ہوئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بڑے عہدوں پرلوگ بلامقابلہ ہو جاتے ہیں، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اے این پی کے ضلعی صدور بھی بلامقابلہ بنے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا معاملہ پرانا ہے، مقابلے میں کوئی نہیں تھا پھر بھی ووٹنگ کیوں نہ ہوئی؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی انتخابات کے جائزے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو فنڈنگ کا جائزہ لینے کا بھی اختیار نہیں؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ فنڈنگ کا معاملہ مختلف ہے اس کی اسکروٹنی الیکشن کمیشن کر سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسکروٹنی کا اختیار الیکشن کمشین کو آئین نہیں قانون میں دیا گیا ہے، اس نکتے پر آپ کیوں نہیں کہتے کہ سول کورٹ کا اختیار ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ فنڈنگ کے ذرائع کے حوالے سے الیکشن ایکٹ بالکل واضح ہے۔

بیرسٹر گوہر کمرہ عدالت سے روانہ

دوران سماعت بیرسٹر گوہر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ابھی خبر آئی ہے میرے گھر میں 4 ڈالے (گاڑیاں) گئے، میرے بیٹے اور بھتیجے کو مارا گیا ہے اور سارے کاغذات لے کر چلے گئے ہیں۔

دریں اثنا چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی بات سنے بغیر بیرسٹر گوہر کمرہ عدالت سے روانہ ہو گئے۔

چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ایسا کچھ نہیں ہونا چاہیے تھا، اگر ایسا ہوا ہے تو اس معاملے کو ذرا دیکھیں۔

یہ نہیں ہو سکتا کہ الیکشن نہ ہو اور انتخابی نشان بھی مل جائے، چیف جسٹس

سماعت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن بار بار کہہ رہا تھا الیکشن کرا لو، یہ نہیں ہو سکتا کہ الیکشن نہ ہو اور انتخابی نشان بھی مل جائے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کروایا لیکن وہ مانتے ہی نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس وقت معاملہ حالیہ انتخابات کا ہے پرانا نہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابی نشان پی ٹی آئی کا بنیادی حق ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن ہوجائے تو سرٹیفکیٹ اور انتخابی نشان بعد کی باتیں ہیں۔

بیرسٹر گوہر کمرہ عدالت میں واپس آگئے

دریں اثنا بیرسٹر گوہر کمرہ عدالت میں واپس آگئے، بیرسٹر گوہر عدالت میں واپس آگئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گوہر صاحب کیا پوزیشن ہے؟ بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کہ سر حالات بہت سنگین ہیں، چار ڈالوں میں لوگ میرے گھر آئے، کسی پر اعتماد نہیں ہے، عدالت کو بتانا چاہتا ہوں کہ کیا ہوا۔

چیف جسٹس نے بیرسٹر گوہر کو بات کرنے سے روکتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پہلے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بتائیں، اگر بات نہ سنی جائے تو عدالت کو آگاہ کریں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کا آگاہ کیا کہ سیکریٹری داخلہ اور آئی جی سے بات ہوئی ہے، سیکریٹری داخلہ اور آئی جی معلوم کر رہے ہیں کہ کیا ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ ابھی معاملے کو فکس کریں۔

بیرسٹر گوہر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اب تو حد سے بھی تجاوز ہوگیا ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پلیز یہاں بات نہ کریں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو کہہ دیا ہے، وہ معاملہ دیکھ رہے ہیں، ہم ایس ایچ او تو نہیں ہیں۔

بعد ازاں آئی جی اسلام آباد سپریم کورٹ پہنچ گئے

لاہور میں معاملہ چل رہا تھا تو پشاور کیوں گئے؟ چیف جسٹس

سماعت جاری کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست پارٹی کی جانب سے نہیں دی گئی، جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ درخواست گزار پی ٹی آئی کا ضلعی صدر ہے۔

علی ظفر کا کہنا تھا کہ ریکارڈ کے مطابق ہائی کورٹ نے لکھا کہ معاملہ پشاور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے، دوبارہ انتخابات کا الیکشن کمیشن کا حکم چیلنج کیا لیکن اس پر عمل بھی کر دیا، لاہور ہائی کورٹ میں فل بنچ بنا ہوا تھا اس لیے وہاں سے رجوع کیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ دوسرا الیکشن پشاور میں ہوا وہ بھی الیکشن کمیشن نے نہیں مانا، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ لاہور میں معاملہ چل رہا تھا تو پشاور کیوں گئے؟ لاہور ہائی کورٹ میں ابھی تک درخواست زیرالتوا ہے۔

علی ظفر کا کہنا تھا کہ کل آپ کو غلط معلومات دی گئیں کہ میں نے التوا مانگا تھا، میں پہنچا تو بنچ پہلے ہی تحلیل ہوچکا تھا، بنچ لگتا تو درخواست غیرمؤثر ہونے پر واپس لے لیتا۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ اگر دو ہائی کورٹس بیک وقت کیس سننے کے لیے بااختیار ہوں تو کسی سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے، ایک ہائی کورٹ میں مقدمہ زیر التوا ہو تو دوسری کو فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہونے دیں گے کہ ایک جگہ سے سٹے نہ ملے تو دوسری ہائیکورٹ چلے جاؤ، اگر خیبر پختونخوا کا صوبائی الیکشن ٹھیک نہ ہوتا تو پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنا بنتا تھا، علی ظفر نے کہا بیرسٹر گوہر الیکشن کمیشن کے حکم سے متاثرہ فریق ہیں، بیرسٹر گوہر کو پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟

عمران خان دوبارہ چیئرمین بن جائیں تو ہم سے زیادہ خوش کوئی نہیں ہوگا، وکیل

وکیل علی ظفر نے کہا کہ نام نہاد شکایت کنندگان بھی لاہور ہائیکورٹ میں فریق نہیں تھے، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا لاہور ہاہیکورٹ کے پاس دائرہ اختیار نہیں تھا؟

علی ظفر نے جواب دیا کہ کوئی زبردستی نہیں کر سکتا کہ کس عدالت سے رجوع کرنا ہے کس سے نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر لاہور ہائی کورٹ پی ٹی آئی کا سابقہ الیکشن درست قرار دیدے تو کیا ہوگا؟

وکیل علی ظفر نے بتایا کہ عمران خان دوبارہ چیئرمین بن جائیں تو ہم سے زیادہ خوش کوئی نہیں ہوگا، الیکشن کمیشن نے عمران خان کو ہٹانے کا نوٹس جاری کیا تھا اس وجہ سے چئیرمین تبدیل کیا۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا الیکشن کمیشن چیئرمین کو ہٹا سکتا ہے؟ وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کا نوٹس چیلنج کر رکھا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ عمران خان ازخود بحال ہوجائیں گے یا چیئرمین کا دوبارہ الیکشن ہوگا؟ علی طفر نے بتایا کہ بیرسٹر گوہر کے مستعفی ہونے پر چیئرمین کا الیکشن دوبارہ ہوگا، الیکشن کمیشن نے 175 سیاسی جماعتوں میں سے کسی اور کے پارٹی انتخابات کالعدم نہیں کیے۔

علی ظفر نے کہا کہ ہمایوں اختر کیس میں الیکشن کمیشن نے قرار دیا پارٹی انتخابات کیس میں مداخلت نہیں کر سکتے، جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ آپ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ 2009 کا ہے، کیا اس وقت اور ان کے قانون میں فرق نہیں ہے؟

وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے جواب دیا کہ قانون میں کوئی فرق نہیں آیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ سیاسی جماعتوں کے 2002 کے آرڈیننس کے تحت ہے۔

علی ظفر نے بتایا کہ نئے قانون میں بھی دفعات وہی ہیں، ق لیگ میں بھی پارٹی انتخابات درست نہ ہونے کا سوال تھا،

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو چیمبر میں بلا لیا۔

سارے مسئلے آپ کی پارٹی کےساتھ کیوں ہو رہے ہیں؟ چیف جسٹس

وکیل پی ٹی آئی نے کہ اسد عمر پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل تھے، اسد عمر کو اٹھا لیا گیا جس کے بعد انہوں نے پارٹی عہدہ چھوڑ دیا، اسد عمر کے مستعفی ہونے کے بعد ڈپٹی سیکریٹری جنرل عمر ایوب کو سیکریٹری جنرل بنایا گیا، اسد عمر نے پہلے عہدہ بعد میں پارٹی چھوڑی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اسد عمر نے نو مئی واقعات کی وجہ سے پارٹی چھوڑی، سارے مسئلے آپ کی پارٹی کے ساتھ کیوں ہو رہے ہیں؟

علی ظفر کا کہنا تھا کہ ایک بندے کو کاغذات نامزدگی نہ ملنے پر پارٹی کو الیکشن سے باہر نہیں کیا جا سکتا، الیکشن کمیشن نے ٹرائل کرنا ہے تو ہمیں شواہد پیش کرنے کا موقع بھی دیتا، کسی اور جماعت کے ساتھ یہ رویہ نہیں جو پی ٹی آئی کے ساتھ ہے، اگر الیکشن نہ کراتے تو الیکشن کمیشن کا پوچھنا بنتا تھا، الیکشن کمیشن کو ٹربیونل بننے کا اختیار کہاں سے مل گیا؟

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ انٹرا پارٹی انتخابات میں مسئلہ ہو تو کہاں رجوع کیا جا سکتا ہے؟ علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کا اپنا فیصلہ ہے کہ سول کورٹ سے رجوع کیا جائے، الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات نہیں الیکشن کمشنر کی تعیناتی کو غلط قرار دیا ہے، الیکشن کمیشن نے عہدیداران کے بلامقابلہ انتخاب پر اعتراض نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پشاور ہائی کورٹ میں تحریک انصاف نے انتخابات درست قرار دینے کی استدعا نہیں کی تھی، الیکشن درست ہو تو نشان کا مسئلہ خود حل ہو جائے گا،

وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا حکم کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی، الیکشن کمیشن کا حکم ہی کالعدم ہوگیا تو سب کچھ ختم۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابی نشان واپس لینے کے علاوہ کوئی ہتھیار نہیں ہے، آپ سوچ کر جواب دینا چاہیں تو مخدوم علی خان کے بعد دوبارہ سن لیں گے۔

بعد ازاں سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا گیا۔

سماعت کے دوبارہ آغاز کے بعد بیرسٹر گوہر کے گھر مبینہ چھاپے کا معاملہ زیر بحث آیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم نے آئی جی کو بھیجا تھا، وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے جواب دیا کہ یہ تو اچھی بات ہے۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا آئی جی اسلام آباد عدالت میں موجود ہیں؟وکیل علی ظفر نے بتایا کہ آئی جی اسلام آباد آئے تھے شاید باہر گئے ہیں، آجائیں گے۔

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران آئی جی اسلام آباد روسٹرم پر آگئے۔

عدالت نے آئی جی سے استفسار کیا کہ آپ کو معلوم ہے کہ کیا معاملہ ہوا؟ آپ بیرسٹرگوہر کے گھر کیوں گئے؟ آئی جی نے جواب دیا کہ ہم جانتے ہیں کچھ ہوا ،پولیس ان کے گھر گئی ہے، پولیس کی ایک پارٹی نے ان کے گھر میں ریڈ کیا،پولیس گئی لیکن بیرسٹر صاحب کے گھر کا پتہ چلنے ہر واپس آگئی، پولیس اشتہاری ملزمان کی تلاش کے لیے گئی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ذاتی طور پر جائیں، ان کی اہلیہ اور جس سے معلومات لینی ہو لے کر تحریری رپورٹ دیں،اگر بیر سٹر گوہر مطمئن نہ ہوں تو آگاہ کیجئے،ہر شہری کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے بیرسٹر گوہر سے سوال کی کہ کیا آپ مطمئن ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں ابھی تک کے احکامات سے مطمئن ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر بیرسٹر گوہر مطمئن نہ ہوئے تو مزید ایکشن بھی لیں گے، آپ کے گھر کون کون تھا؟

بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ میری اہلیہ اور بچے گھر پر تھے۔

انتخابات میں بے ضابطگی پر نشان واپس نہیں لیا جا سکتا، وکیل پی ٹی آئی

بعد ازاں سماعت جاری کرتے ہوئے چیف جسٹس نے وکیل پی ٹی آئی سے سوال کیا کہ آپ کو مزید کتنا وقت لگے گا؟ علی طفر نے جواب دیا کہ دس منٹ میں دلائل مکمل کر لوں گا، انتخابات میں بے ضابطگی پر نشان واپس نہیں لیا جا سکتا، الیکشن کرانے والا کون ہے اس سے فرق نہیں پڑتا، سپریم کورٹ کا اس حوالے سے 1968 کا فیصلہ موجود ہے، الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر اعتراض تو درخواست گزاروں نے بھی نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر انہیں معلوم ہو ہوتا تو شاید اعتراض کرتے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ جج کی تعیناتی بھی خلاف قانون قرار پائے تو اس کے فیصلوں کو تحفظ ملتا ہے، الیکشن کمشنر کی تعیناتی اگر غلط بھی تھی تو انتخابات کالعدم نہیں ہوسکتے۔

سپریم کورٹ میں ‏بیرسٹر علی ظفر کے دلائل مکمل ہوگئے۔

وکیل پی ٹی آئی حامد خان نے دلائل کا آغاز کر دیا۔

وکیل حامد خان نے دلیل دی کہ تاثر ہے کسی کو کوئی کام نہیں کرنے دیا جاتا، ہمارے کارکنان کو ہراساں کیا جا رہا تھا، ہمارے ہزاروں کارکنوں اور خواتین کو گرفتار کیا گیا، ہراساں کرنے کی وجہ سے ہی پشاور میں انتخابات کروائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کرنے کے لیے وکیل کی ضرورت ہے کارکنوں کی نہیں، اگر ہراساں کیا جارہا تھا تو پھر اپ سیکیورٹی کو خط نہ لکھتے، آپ چپکے سے انتخابات کروا دیتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ لاہور میں کیس زیر سماعت تھا تو پشاور ہائیکورٹ کیوں گئے؟ حامد خان نے بتایا کہ دونوں کیسز الگ ہیں، الیکشن کمیشن ادارہ ہے متاثرہ فریق کیسے ہوسکتا ہے؟ الیکشن کمیشن کی اپیل ناقابل سماعت ہے۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا آرٹیکل 185 میں اپیل دائر کرنے کے لیے متاثرہ فریق کا ذکر موجود ہے؟

حامد خان نے جواب دیا کہ اپیل کے لیے متاثرہ فریق کا لفظ موجود نہیں ہے۔

ہم ابھی فیصلہ کریں گے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر ہائی کورٹ الیکشن کمیشن کو تحلیل کردے تو کیا ادارہ اپیل نہیں کر سکے گا؟ کمیشن کے کسی رکن کو ہٹایا جائے تو کیا کمیشن اپیل نہیں کر سکتا؟ معاملہ اگر کسی رکن کی تعیناتی غیرقانونی ہونے کا ہو تو الگ بات ہے۔

حامد خان کا کہنا تھا کہ معلومات تک رسائی کے متعلق فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ عدالت درخواست گزار نہیں ہوسکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ 7 بجے تک الیکشن کمیشن نے انتحابی نشان دینے کا وقت بڑھا دیا ہے، ہوسکتا ہے یہ آپ کے لیے اچھی خبر ہو، بری بھی ہوسکتی ہے، آپ جلدی کریں ہم ابھی فیصلہ کریں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کا مزید کہنا تھا کہ ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ ہائی کورٹ میں درخواست دائر نہیں کر سکتی، الیکشن کمیشن کے خلاف کیسز ہوسکتے ہیں تو وہ اپنا دفاع کیوں نہیں کر سکتے؟ اگر ہائی کورٹ خود اپیل کرے تو بات مختلف ہوگی۔

حامد خان نے بتایا کہ اس حوالے سے استدعا دلائل کے آخر میں کروں گا، چیف جسٹس نےحامد خان کو ہدایت دی کہ آپ اپنے دلائل جلدی مکمل کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں۔

حامد خان نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کے بااختیار ہونے میں کوئی دو رائے نہیں، اختیارات مختلف حالات کے مطابق دیے گئے ہیں، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کےساتھ دوہرا معیار اپنایا، الیکشن کمیشن نے کسی دوسری جماعت کے انتخابات کی اس طرح اسکروٹنی نہیں کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جن کی اسکروٹنی نہیں ہوئی انہیں فریق بناتے اور الگ الگ کیس کرتے، ایک سیاسی جماعت کا وجود ہی الیکشن کمیشن نے ختم کر دیا ہے؟

حامد خان نے کہا کہ درخواست گزاروں نےخود دستاویزات لگائی ہیں دو جماعتوں کی جہاں بلامقابلہ انتخاب ہوا۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا ان جماعتوں کے خلاف کوئی شکایت آئی یا کمیشن نے سوموٹو لیا؟

وکیل حامد خان نے بتایا کہ شکایت کنندہ تو ہمارے ملک میں مل ہی جاتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس وجیہ الدین نے بھی انتخابات کرائے تھے بہت شور پڑ گیا تھا۔

حامد خان کا کہنا تھا کہ سال 2011/12 کا پارٹی الیکشن میں نے کرایا تھا وجیہ الدین ٹربیونل تھے، انٹراپارٹی انتخابات اندرونی معاملہ ہے الیکشن کمیشن جائزہ نہیں لے سکتا۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ فوزیہ قصوری بھی پارٹی میں ہیں یا چلی گئیں؟

حامد خان نے بتایا کہ آپ کے سامنے یہ معاملہ نہیں، آپ کے سامنے سوال ہے انتخانی نشان ملنا چاہیے یا نہیں، پشاور ہائیکورٹ میں استدعا تھی کہ الیکشن کمیشن انٹراپارٹی انتخابات میں مداخلت نہیں کر سکتا،

چیف جسٹس نے حامد خان کو دلائل جلد مکمل کرنے کی ہدایت کر دی

وکیل حامد خان نے کہا کہ الیکشن لڑنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ 14 درخواست گزار بھی یہی حق مانگ رہے ہیں۔

وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کیسے پارٹی کے اندرونی معاملے میں مداخلت کر سکتا ہے؟ الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے انتخابی نشان کو ٹارگٹ کر رہا ہے، الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو کیوں انتخابات سے باہر رکھنا چاہتا ہے؟ الیکشن کمیشن کروڑوں ووٹرز کو حق سے کیسے محروم کر سکتا ہے؟ ایسے الیکشن کو کون مانے گا جس میں ایک پاپولر پارٹی کو الیکشن سے باہر کر دیا جائے، ‏سپریم کورٹ کو فیصلہ کرتے وقت دیکھنا ہو گا اس کے اثرات کیا ہوں گے؟

چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ یہ تو ڈرامائی الفاظ ہیں، اگر یہ 14 لوگ الیکشن لڑتے تو ووٹرز کے حقوق کیسے متاثر ہوتے؟ حامد خان نے بتایا کہ درخواست گزار پارٹی ممبر ہی نہیں ہیں تو الیکشن کیسے لڑتے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے خود مانا تھا کہ اکبر بابر بانی رکن ہیں، حامد خان نے جواب دیا کہ بانی رکن اپنی پارٹی کےخلاف کیسے عدالتوں میں جا سکتا ہے، اکبر بابر کو شوکاز جاری کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ شوکاز نوٹس دکھا دیں، حامد خان نے بتایا کہ اکبر بابر کا پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ عدالت میں چیلنج نہیں ہے، تین دن پہلے ایک بانی ممبر ایم کیو ایم میں شامل ہوا ہے، کیا بانی ممبر ہمیشہ ہی رکن رہ سکتا ہے؟

جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ عدالت میں کیس انتخابی نشان کا ہے اندرونی طریقہ کار کا نہیں، وکیل نے بتایا کہ پارٹی اگر کسی کو ممبر نہ مانے تو اس کا کام ہے خود کو عدالت میں رکن ثابت کرے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان صاحب وقت زیادہ لگے گا تو نتائج کے لیے بھی تیار رہیں، حامد خان کا کہنا تھا کہ کوشش ہے کہ جلدی بات مکمل کر لوں، مقبول سیاسی جماعت کو الیکشن سے باہر کرنے سے ووٹرز کے حقوق متاثر ہوں گے، آئین قانونی اور سیاسی دستاویز ہے،

پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے دلائل مکمل کر لیے۔

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف درخواست گزار عدالت میں پیش

پی ٹی آئی انتخابات کے خلاف درخواست گزار یوسف علی عدالت میں پیش ہوئے انہوں نے بتایا کہ بچپن سے تحریک انصاف میں ہوں، فریق محمود خان نے کہا کہ قطر میں ہوتے ہوئے پی ٹی آئی 2006 میں جوائن کی، اسلام آباد کا کوآرڈینیٹر 2009 میں بنا تھا،الیکشن لڑنا چاہتا تھا لیکن طریقہ کار کا علم ہی نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ پی ٹی آئی کو آپ سے کیا مسئلہ ہے؟ محمود خان نے کہا کہ یہ پی ٹی آئی سے پوچھیں میں تو جمہوری آدمی ہوں۔

پی ٹی آئی کے خلاف ایک اور درخواست گزار نورین فاروق عدالت میں پیش، انہوں نے بتایا کہ 1999 میں پی ٹی آئی کا حصہ بنی اور خواتین ونگ کی مقامی صدر تھی، نعیم الحق کی سیکریٹری کے طور پر بھی فرائض انجام دیتی رہی ہوں، کسی اور جماعت کا حصہ نہیں بنی، الیکشن لڑنا چاہتی تھی لیکن موقع نہیں ملا، چاہتی تھی ہائی لائٹ ہو جاؤں، عمران خان مجھے پارٹی کا اثاثہ اور انسائیکلوپیڈیا کہتے تھے۔

بانی رکن بلال اظہر رانا بھی عدالت میں پیش چیف جسٹس نے پوچھا کہ بانی ارکان میں آپ کا نام نہیں ہے، بلال رانا نے بتایا کہ 25 اپریل 1996 سے تحریک انصاف کا حصہ ہوں، میرے پاس پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں ہے۔

پی ٹی آئی کے رکن محمد مزمل بھی عدالت میں پیش، انہوں نے بتایا کہ 2016 سے پی ٹی آئی کا رکن اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سے وائس پریذیڈنٹ تھا، انٹرا پارٹی انتخابات میں حصہ لینے پی ٹی آئی سیکریٹریٹ گیا تو کہا گیا خان صاحب نے جن کو کہہ دیا وہی لڑیں گے، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ خان صاحب سے آپ کی کوئی ناراضگی تھیی؟ درخواست گزار نے کہا کہ سچ بولو تو خان صاحب ناراض ہو جاتے ہیں۔

پارٹی انتخابات درست نہ ہوں تو انتخابی نشان نہیں مل سکتا، وکیل اکبر ایس بابر

بعد ازاں درخواست گزار اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے دلائل کا آغاز کر دیا

احمد حسن نے کہا کہ پی ٹی آئی کا 1999 کا آئین ریکارڈ پر موجود ہے، پی ٹی آئی آئین ساز کمیٹی کے کئی ارکان غیرفعال ہیں یا چھوڑ چکے ہیں، آئین ساز کمیٹی کے چیئرمین حامد خان صرف ابھی موجود ہیں، بانی ارکان میں عارف علوی اور اکبر بابر بھی شامل ہیں۔

مزید بتایا کہ پارٹی بنی تو بلے کے نشان کے لیے عمران خان نے اکبر بابر کو الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا کہا، اکبر بابر کو پارٹی کےخلاف بیانات پر شوکاز جاری کیا گیا تھا، اکبر بابر کو شوکاز نوٹس 2019 میں جاری کیا گیا تھا، اسلام آباد ہاہی کورٹ قرار دے چکی ہے کہ اکبر بابر پی ٹی آئی کے ممبر ہیں، ممنوعہ فنڈنگ کیس میں اکبر بابر کی رکنیت کا اعتراض اٹھایا گیا تھا، پارٹی انتخابات درست نہ ہوں تو انتخابی نشان نہیں مل سکتا۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا پشاور ہائ یکورٹ کو آگاہ کیا گیا تھا کہ معاملہ لاہور میں بھی زیرالتوا ہے؟ وکیل نے بتایا کہ بظاہر ریکارڈ پر ایسی کوئی دستاویز نہیں ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل علی طفر نے وضاحت دی کہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا کیس سے پشاور ہائی کورٹ کو آگاہ کیا تھا۔

اکبر بابر کے وکیل نے کہا کہ عام انتخابات میں کاغذات جمع کراتے وقت ہی پارٹی سے تعلق لکھنا ہوتا ہے، بلے سے پہلے پی ٹی آئی کا نشان چراغ ہوتا تھا

اکبر ایس بابر کے وکیل کے دلائل مکمل ہوگئے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جوب الجواب کا آغاز کر دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی کہتی ہے الیکشن کمیشن دوہرا معیار اپنا رہا ہے، وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے کل 13 سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن ختم کی ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ اے این پی کو شاید لا اینڈ آرڈر کی وجہ سے دس مئی تک وقت دیا ہے،مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ اے این پی کے پانچ سال ابھی پورے نہیں ہوئے تھے، اے این پی کو مہلت پانچ سال کی مدت کو مدنظر رکھتے ہوئے دی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہوسکتا ہے پشاور ہائی کورٹ کو لگا ہو کہ لاہور میں ایک ہی درخواست دائر ہوئی ہے، پشاور ہائی کورٹ کو تین درخواستیں زیر التوا ہونے کا علم نہیں ہوگا، کیا پی ٹی آئی کو 2021 میں شوکاز نوٹس کسی شکایت پر دیا گیا تھا؟

وکیل الیکشن کمیشن مخدوم علی خان نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کا 2021 والا شوکاز کسی شکایت پر نہیں تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سمجھ رہے تھے آپ جمہوریت کے حوالے سے ہمیں کچھ بتائیں گے، پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رہا تو شاید انٹرا پارٹی انتخابات کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔

درخواست پر سماعت مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے، مجھے اپنے ساتھیوں سے مشاورت کرنی ہے، ہمیں سانس لینے دیں۔

عدالتی عملے کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں فیصلہ ساڑھے 9 بجے سنایا جائے گا۔

گزشتہ سماعت کا احوال

یاد رہے کہ گزشتہ روز 12 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ بنیادی چیز جمہوریت ہے، ملک اور سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے اور اگر انٹراپارٹی انتخابات درست نہ ہوئے تو پی ٹی آئی کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عدالت نے کیس کی سماعت آج صبح 10 بجے تک ملتوی کردی تھی۔

سماعت کے بعد جاری حکم نامے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ ہمیں آگاہ کیا گیا کہ عام انتخابات کی وجہ سے معاملہ فوری سماعت کا ہے، ہمارا ویک اینڈ برباد کرنے کا شکریہ۔

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو آج حاضر ہونے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہوسکتا ہے آپ سے کل کچھ پوچھنا پڑ جائے۔

سپریم کورٹ میں انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق کیس پر سماعت مکمل ہوگئی ہے۔

کیس کا پسِ منظر

یاد رہے کہ 22 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔

26 دسمبر کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی سے ’بلے‘ کا نشان واپس لینے کا فیصلہ معطل کردیا تھا۔

بعدازاں 30 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کر دی تھی۔

3 جنوری کو ’بلے‘ کے انتخابی نشان کی بحالی کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اپنا حکم امتناع واپس لے لیا تھا، جس کے بعد پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان ’بلے‘ سے اور بیرسٹر گوہر خان پارٹی چیئرمین شپ سے محروم ہوگئے تھے۔

تاہم 10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو ’بلے‘ کے نشان پر الیکشن لڑنے کی اجازت دے دے دی تھی، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں