پشاور ہائی کورٹ نے انتخابی نشان کیس میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ’بلے‘ کے نشان پر الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔

’ڈان نیوز‘ کے مطابق پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس ارشد علی نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کیس کی سماعت کی۔

بیرسٹر علی ظفر سمیت پی ٹی آئی وکلا عدالت پہنچے، علاوہ ازیں فریقین کے وکلا بھی عدالت پہنچے۔

انصاف لائرز فورم کی جانب سے عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ بیرسٹر گوہر اسلام آباد میں مصروفیات کے باعث آج نہیں آئیں گے، ہمارے دلائل مکمل ہوچکے ہیں، قانونی طور پر آج بیرسٹر گوہر کی ضرورت نہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ امید ہے آج عدالت جلد فیصلہ سنائے گی، آج تاریخی دن ہے اور اہم فیصلہ ہوگا، آج جمہوریت کی تاریخ کا اہم فیصلہ ہوگا، اگر ’بلا‘ نہ ملا تو بھی تیار ہیں لیکن فی الحال اس پر نہیں سوچنا چاہیے۔

کیس میں فریق جہانگیر کے وکیل نوید اختر ایڈووکیٹ نے کہا کہ آج سپریم کورٹ میں بھی کیس لگا ہے، جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ یہ بات کل ختم ہوچکی ہے، انہوں نے بتایا وہ وہاں کیس نہیں کررہے، اگر کل یہ نہ بتایا ہوتا تو ہم پھر پرسوں کی تاریخ دیتے۔

اس موقع پر بیرسٹر ظفر نے عدالت کو انتخابی نشان کیس کے معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

’انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیے گئے تو آپ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے‘

کیس میں صوابی کے فریق یوسف علی کے وکیل قاضی جواد ایڈووکیٹ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میرے مؤکل پی ٹی آئی کے سابقہ ضلعی جنرل سیکرٹری رہے ہیں، میرے مؤکل کو میڈیا سے پتا چلا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہورہے ہیں، وہ الیکشن میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن ان کو موقع نہیں دیا گیا۔

جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ آپ نے یہ نہیں کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کرائے جائے، الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیا تو آپ کو چاہیے تھا کہ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے، آپ اگر پارٹی سے تھے تو پارٹی نشان واپس لینے پر آپ کو اعتراض کرنا چاہیے تھا لیکن آپ نے نہیں کیا۔

قاضی جواد ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمیں تو انتخابات میں موقع نہیں دیا گیا، اس کے خلاف الیکشن کمیشن گئے، انٹرا پارٹی انتخابات پورے ملک کے لیے ہے، ہائی کورٹ صرف صوبے کو دیکھ سکتا ہے۔

جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ کیا ہر صوبے میں الگ الگ کیس کرنا چاہیے تھا ان کو؟ انٹرا پارٹی الیکشن پشاور میں ہوا تو یہاں پر کیسے کیس نہیں کرسکتے؟

جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ جو الیکشن ہوئے اس میں تمام ممبران منتخب ہوئے یا صرف صوبے کی حد تک؟ قاضی جواد ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ پورے ملک کے نمائندے منتخب ہوئے، لاہور ہائی کورٹ نے کیس کو جارج کیا ہے۔

جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ وہ آرڈر آپ نے پڑھا ہے، اس میں کہا ہے کہ کیس پشاور ہائی کورٹ میں ہے اس لیے مداخلت نہیں کرتے، کیا کوئی انتخابات بغیر نشان کے منعقد ہوئے؟

قاضی جواد ایڈووکیٹ نے کہا کہ ماضی میں نان پارٹی انتخابات ہوئے، پارٹیز ختم بھی ہوئی تو نئی بن گئی، اس پر جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ دیکھ لیں وہ مارشل لا کے دور میں ہوا ہے۔

قاضی جواد ایڈووکیٹ نے کہا کہ لیکن یہ سب ایک لیگل فریم کے اندر ہوا ہے۔

جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ اچھا آپ یہ بتائیں آپ کی پارٹی ہے تو کیا ان کو انتخابی نشان ملنا چاہیے؟ اس پر قاضی جواد ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں رولز کی بات کرتا ہوں جو قانون ہے وہی ہونا چاہیے۔

جسٹس ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ نہیں ویسے آپ کیا چاہتے ہیں ان کے خلاف انتخابی نشان واپسی کی کارروائی ٹھیک ہے؟

قاضی جواد ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ میں تو قانون کی بالادستی کی بات کرتا ہوں، قانون کے مطابق کارروائی کو سپورٹ کرتا ہوں، ماضی میں ایک پارٹی 2 حصوں میں تقسیم ہوئی اور ایک ہی انتخابی پر مسئلہ کھڑا ہوا، الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان پر مسئلہ حل کیا کیونکہ اس کا اختیار حاصل تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوں اور اس میں حصہ لوں، ان کو شوکاز نوٹسز دیے گئے، یہ ایک تسلسل ہے، یہ کوئی ایک دن میں نہیں ہوا۔

دریں اثنا کیس میں فریق صوابی کے یوسف علی کے وکیل قاضی جواد کے دلائل مکمل ہوگئے، جس کے بعد کیس میں فریق کوہاٹ کے شاہ فہد کے وکیل طارق آفریدی نے دلائل کا آغاز کیا۔

طارق آفریدی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ سن سکتا ہے، پشاور ہائی کورٹ اس کیس کو نہیں سن سکتا، ہائی کورٹ کے حدود سے متعلق آرٹیکل 199 واضح ہے۔

جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ آپ کو عدالت میں موجود ہونا چاہیے تھا، قاضی جواد نے بھی اختیارات پر ایک گھنٹہ لیا۔

اس دوران کیس میں فریق کوہاٹ کے شاہ فہد کے دوسرے وکیل احمد فاروق ایڈووکیٹ بھی عدالت میں پیش ہوگئے۔

’قانونی بات کریں، یہاں کبھی ایک، کبھی دوسرا لاڈلا بن جاتا ہے‘

احمد فاروق ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ پارٹی جیسے ہی بنی وہیں سے لاڈلا پن شروع ہوا، اس پر جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ آپ قانونی بات کریں، یہاں پر کبھی ایک اور کبھی دوسرا لاڈلا بن جاتا ہے۔

احمد فاروق ایڈووکیٹ نے کہا کہ اپنے کارکنوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دیا، انٹرا پارٹی انتخابات کا اچانک بلبلا اٹھا اور اعلان کیا گیا کہ کابینہ بن گئی۔

جسٹس اعجاز انور کے ریمارکس دیے کہ وہی بلبلا ابھی پھٹا ہے، ان ریمارکس پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔

احمد فاروق ایڈووکیٹ نے کہا کہ انتخابات آئین کے مطابق نہیں کرائے گئے، الیکشن کمیشن فیصلہ کے خلاف بھی سول کورٹ جانا چاہیے تھا، الیکشن ایکٹ میں یہ لازمی نہیں کہ ہر انتخاباب میں وہی نشان ملے گا، اگر 2 جماعتیں مانگ لیں تو الیکشن کمیشن کو اختیار ہے، ماضی میں چراغ سے جھونپڑی بن گئی اور پھر کچھ اور۔

دریں اثنا کیس میں فریق کوہاٹ کے شاہ فہد کے وکلا کے دلائل مکمل ہوگئے، بعدازاں کیس میں فریق نورین فاروق اور راجا طاہر کے وکیل میاں عزیز الدین نے دلائل کا آغاز کیا۔

میاں عزیز الدین نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس سرٹیفیکٹ مجاز شخص نے جمع نہیں کیا، جب فریقین کو معلوم ہوا تو عدالت میں کیس کردیا، عدالت نے کیس کمیشن کے پاس بھیج دیا، اس کے بعد مجاز شخص کے ذریعے سرٹیفیک جمع کیا گیا۔

میاں عزیز الدین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس میں فریق چارسدہ کے جہانگیر کے وکیل نوید اختر نے دلائل کا آغاز کیا۔

نوید اختر ایڈووکیٹ نے کہا کہ میرا مؤکل ضلعی صدر رہ چکا ہے، ایک بیان پر جہانگیر کو پارٹی سے فارغ کیا گیا، آئین کے مطابق عہدیداروں کو منتخب نہیں کیا گیا جو لازمی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عہدیداروں کی تازہ فہرست الیکشن کمیشن کو دینی ہوتی ہے، انتخابی نشان بھی سیاسی پارٹی کو اس کی کریڈیبلیٹی کے مطابق دیا جاتا ہے، پارٹی کے آئین اور ووٹر کے تحفظ کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

دریں اثنا عدالت نے ریمارکس دیے کہ مزید کیس کو وقفے کے بعد سنتے ہیں، بعدازاں عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو نوید اختر ایڈووکیٹ نے دلائل کے سلسلہ کا دوبارہ آغاز کیا۔

جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات پر جرمانہ ہوسکتا ہے، کیا الیکشن کمیشن نے یہ کارروائی کی ہے؟ نوید اختر نے جواب دیا کہ نہیں، الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ 215 کے تحت کارروائی کی۔

جسٹس ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ اس سکیشن میں تو انٹرا پارٹی انتخابات کی بات نہیں ہے۔

نوید اختر ایڈووکیٹ نے کہا کہ قانون کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات پارٹی آئین اور الیکشن ایکٹ کے مطابق ہونے چاہیے، اس رو سے انٹرا پارٹی انتخابات خود بخود 215 سیکشن میں آتے ہیں، میرے مؤکل نے پہلے انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کے لیے درخواست دی تھی۔

جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ وہ بات تو ختم ہوگئی نا، جب الیکشن کمیشن نے 20 دن کا وقت دے دیا۔

نوید اختر نے کہا کہ مجھے اس پر بات کرنی ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات کیسے ہوئے، اس پر جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ نہیں آپ اس پر بات نہیں کرسکتے ہیں، ہم نے ان کو بھی اس پر نہیں سنا، الیکشن کیسے ہوا یہ تو پھر بات شواہد پر جائے گی۔

نوید اختر نے کہا کہ میرے مؤکل کی بات اہم ہے، جب آنکھ کھلی وہ تب سے اس پارٹی میں ہیں، جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ آپ کا مطلب ہے کہ نظریاتی ہیں؟

نوید اختر نے مزید کہا کہ متنازع انتخابات ہوئے، سب نے کہا قبول ہے قبول ہے، سب نے کہا کہ جو بانی چئیرمین کہیں گے وہی ہوگا۔

جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ یہاں تو سب جماعتیں ایک ہی کے لوگ چلاتے آرہے ہیں، صرف یہی اور ایک اور پارٹی ہے جو ورکر کو آگے آنے دے رہی ہے۔

پرائیوٹ فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اختتامی ریمارکس دینے کے لیے بیرسٹر علی ظفر دوبارہ ڈائس پر آگئے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ اسلام آباد یا پشاور ہائی کورٹ، کہی بھی چینلج ہوسکتا ہے، انتخابات یہاں ہوئے اور سیکرٹری جنرل عمر ایوب کا تعلق بھی اس صوبے سے ہے۔

علی ظفر نے پشاور ہائی کورٹ کے اختیارات کے متعلق مختلف فیصلے عدالت میں پڑھ کر سنائے، انہوں نے کہا کہ اس صوبے میں 2 بار اس پارٹی نے حکومت بھی کی ہے، پورے ملک کی مخصوص سیٹیں اس سے متاثر ہوں گی، یہ کہنا غیر مناسب ہے کہ آفس اسلام آباد میں ہے اس لیے کیس یہاں نہیں ہو سکتا۔

اِس درخواست کو مسترد ہی ہونا ہے، وکیل الیکشن کمیشن

بیرسٹر علی ظفر کا جواب الجواب مکمل ہونے کے بعد عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر مہمند سے استفسار کیا کہ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟

جسٹس ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ الیکشن ایکٹ کے 215 سیکشن میں انٹرا پارٹی انتخابات کا ذکر نہیں، یہ کارروائی آپ نے کیسے کی؟

سکندر مہمند نے کہا کہ 215 سکیشن تب لاگو ہوتا ہے جب اختیار ہو، تو الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے، اس لیے اس درخواست کو مسترد ہی ہونا ہے۔

جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق سیکشن 208 میں الیکشن ہوگا لیکن پارٹی کے آئین کے مطابق، آپ کے مطابق آپ نے شوکاز نہیں دیا، آیا یہ الیکشن ہے یا الیکشن آئین کے مطابق ہے۔

سکندر مہمند نے کہا کہ ایک سال دیا گیا، الیکشن نہیں کیا گیا، الیکشن ایکٹ اور پارٹی آئین کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کرانا لازمی ہے، اگر وقت پر انتخابات نہ کروائے تو جرمانہ ہوتا، یہاں تو آئین کے مطابق انعقاد ہی نہیں کیا، مائی لارڈ! شاید میں نے آپ کے سوال کا جواب دے ہی دیا۔

اِس پر جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ یہ تشنگی باقی رہے گی، اِن ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے، جسٹس اعجاز انور نے مزید ریمارکس دیے کہ انشا اللہ آج ہی فیصلہ کرتے ہیں۔

فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا، عدالت نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ آج ہی کچھ دیر بعد سنایا جائےگا۔

بعدازاں جسٹس اعجاز انور نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا اور پی ٹی آئی کو ’بلے‘ کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔

عدالت نے مختصر فیصلے کے 3 پوائنٹس سناتے ہوئے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر کا فیصلہ غیر آئینی ہے، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا سرٹیفیکیٹ ویب سائٹ پر جاری کیا جائے، پی ٹی آئی ’بلے‘ کے نشان کی حقدار ہے، بلا بطور انتخابی نشان دیا جائے۔

پسِ منظر

واضح رہے کہ گزشتہ روز 9 جنوری کو ہونے والی سماعت میں پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کے وکلا نے دلائل مکمل کرلیے تھے، آج فریقین کے وکلا نے دلائل دیے۔

کیس میں الیکشن کمیشن سمیت 15 فریقین ہیں، گزشتہ روز صرف الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل مکمل ہوئے، آج 14 فریقین میں سے 6 فریقین کے وکلا نے دلائل دیے، 8 فریقین یا ان کے وکلا عدالت میں پیش نہ ہوسکے، اِن 14 فریقین میں اکبر ایس بابر، راجا طاہر نواز، نورین فاروق و دیگر شامل ہیں۔

یاد رہے کہ 22 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔

26 دسمبر کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی سے ’بلے‘ کا نشان واپس لینے کا فیصلہ معطل کردیا تھا۔

بعدازاں 30 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کر دی تھی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مؤقف سنے بغیر پشاور ہائی کورٹ کے حکم امتناع جاری کرنے پر اعتراض کیا تھا۔

2 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کو بلے کے انتخابی نشان کی بحالی کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی تھی۔

3 جنوری کو ’بلے‘ کے انتخابی نشان کی بحالی کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اپنا حکم امتناع واپس لے لیا تھا، جس کے بعد پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان ’بلے‘ سے اور بیرسٹر گوہر خان پارٹی چیئرمین شپ سے محروم ہوگئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں