سپریم کورٹ نے گزشتہ شب الیکشن کمیشن کے فیصلے کو بحال کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ’بلے‘ کے انتخابی نشان سے محروم کردیا جس پر سیاسی و قانونی ماہرین نے حیرت کا اظہار کیا ہے۔

رات گئے سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو ’بلے‘ کا انتخابی نشان واپس کرنے کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

اس فیصلے کو سیاسی اعتبار سے کئی مشکلات میں گِھری پی ٹی آئی کے لیے بڑا دھچکا سمجھا جارہا ہے جو اب اپنے انتخابی نشان ’بلے‘ سے محروم ہوچکی ہے۔

معروف وکیل ریما عمر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی نوعیت کو ’ضرورت سے زیادہ شدید‘ اور ’کڑی سزا‘ سے تعبیر کرتے ہوئے بنیادی حقوق کے لیے بہت بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔

ایک اور وکیل اور انتخابی امیدوار جبران ناصر نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتائج کی نشاندہی کی اور افسوس کا اظہار کیا کہ اس فیصلے سے پاکستان بھر میں لاکھوں ووٹرز حقِ رائے دہی سے محروم ہو جائیں گے۔

بیرسٹر اسد رحیم خان نے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی نوعیت اور مضحکہ خیز منطق کو دیکھتے ہوئے شاید یہ کہا جاسکتا ہے کہ مختصر ترین وقت میں سپریم کورٹ اپنی ساکھ کھو چکی ہے، یہ ایک بالکل مضحکہ خیز فیصلہ ہے۔

سماجی کارکن عمار علی جان نے کہا کہ یہ فیصلہ صرف پی ٹی آئی کی شکست نہیں بلکہ پاکستان میں جمہوری اقدار کی شکست ہے۔

اٹلانٹک کونسل کے پاکستان انیشیٹو کے ڈائریکٹر عزیر یونس نے الیکشن کمیشن کے حق میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فاتح کوئی نہیں ہے، خسارے میں صرف پاکستان اور جمہوریت ہے۔

وکیل حسن اے نیازی نے کہا کہ اس فیصلے سے ایک ’خوفناک مثال‘ قائم کردی گئی ہے، یہ بنیادی حقوق سے متعلق بےنظیر بھٹو کیس میں عدالت کے اپنے طے شدہ اصول سے متصادم ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بات صرف ایک سیاسی جماعت کے حقوق کی نہیں بلکہ کسی بھی سیاسی جماعت کے حق میں اپنی رائے کا استعمال کرنے والے لاکھوں ووٹرز کے حقوق کی ہے جوکہ اب ان سے چھینا جا چکا ہے۔

ایک اور وکیل مرزا معیز بیگ نے نشاندہی کی کہ الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی سے انتخابی نشان چھیننا اور سپریم کورٹ کا اس کی توثیق کرنے کا فیصلہ بظاہر الیکشن ایکٹ اور ڈسٹرکٹ بار راولپنڈی کیس میں سپریم کورٹ کے اپنے فیصلے سے مطابقت نہیں رکھتا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ مثلاً الیکشنز ایکٹ کا سیکشن 208(5) کہتا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت مقررہ وقت کے اندر انٹرا انتخابات کرانے میں ناکام رہتی ہے تو اس پارٹی پر جرمانہ لاگو ہوگا، قانوناً دانستہ طور پر سیکشن 208 میں مزید سزائیں شامل نہیں کی گئیں، لہٰذا پی ٹی آئی کے خلاف الیکشن کمیشن کی کارروائی قانونی مینڈیٹ سے بالاتر معلوم ہوتی ہے، مزید برآں 2017 کے ایکٹ کا سیکشن 215 صرف پارٹی کو اس چیز کا پابند کرتا ہے کہ وہ اس بات کی تصدیق کے لیے بس ایک سرٹیفکیٹ جمع کروا دے کہ اس نے قانون اور اپنے پارٹی آئین کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کرادیے ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ 18ویں ترمیم سے پہلے آئین کے آرٹیکل 17(4) میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ ہر سیاسی جماعت انٹراپارٹی انتخابات کرانے کی پابند ہوگی، تاہم آرٹیکل 17(4) کو ختم کرنے کی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ نے ڈسٹرکٹ بار راولپنڈی کے مقدمے میں تسلیم کیا کہ انٹراپارٹی انتخابات جمہوری سیٹ اپ کے لیے ناگزیر نہیں ہیں۔

جنوبی ایشیائی امور کے تجزیہ کار اور اسکالر مائیکل کوگلمین نے اس فیصلےکو نامناسب اور قبل از انتخابات دھاندلی قرار دیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں