معروف گلوکار علی ظفر نے انکشاف کیا ہے کہ جب ان پر میشا شفیع کی جانب سے ہراسانی کا الزام لگایا گیا تب انہیں مجبوری میں اپنا مؤقف پیش کرنے کے لیے بھارتی صحافی کی مدد لینی پڑی تھی۔

علی ظفر پر گلوکارہ میشا شفیع نے اپریل 2018 میں جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ساتھی گلوکار نے انہیں اس وقت نشانہ بنایا جب وہ بچوں کی ماں بن چکی تھیں۔

دونوں کے درمیان کئی سال تک قانونی جنگ جاری رہی اور تاحال ان کا مقدمہ زیر التوا ہے، کیس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے اور گلوکارہ میشا شفیع پاکستان چھوڑ کر کینیڈا منتقل ہو چکی ہیں۔

علی ظفر پہلے ہی دعویٰ کر چکے ہیں کہ انہیں ہراسانی کے الزامات لگانے سے قبل ہی دھمکیاں دی گئی تھیں اور میشا شفیع نے کینیڈا کی شہریت لینے کی خاطر ان پر الزامات لگائے۔

اب انہوں نے ایک تازہ انٹرویو میں بتایا ہے کہ جب ان پر الزامات لگائے گئے تو پاکستانی میڈیا اور صحافیوں نے ان کا موقف جانے بغیر ان کے خلاف خبریں لگانا شروع کیں، انہیں ایسا محسوس ہوا کہ ایک بھی پاکستانی میڈیا ہاؤس یا صحافی ان کی بات نہیں سن رہا۔

اداکار احمد علی بٹ کے پوڈکاسٹ میں علی ظفر نے ہراسانی کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جس دن ان پر الزام لگایا گیا، اگلے دن ان کی والدہ رو پڑیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان پر لگے الزامات کی وجہ سے ان کی والدہ، اہلیہ، بچوں اور سسرالیوں سمیت تمام عزیز و اقارب نے مشکلات برداشت کیں، اس وقت کوئی بھی ان کا موقف سننے کو تیار نہیں تھا، ایک دن پاکستانی میڈیا، سوشل میڈیا اور بلاگز والے ان کے ایسے مخالف ہوئے کہ جیسے وہ سالوں سے ان کے دشمن ہوں۔

گلوکار کے مطابق انہیں ایسا محسوس ہوا کہ شاید اس لیے بھی لوگ ان کی مخالفت کرنے لگے، کیوں کہ وہ مرد تھے۔

انہوں نے شکوہ کیا کہ پاکستانی میڈیا نے ان کا ایک موقف لیے بغیر ان کے خلاف خبریں شائع کرنا شروع کیں اور سوشل میڈیا پر لوگوں نے اپنی عدالت لگا کر انہیں مجرم قرار دے دیا۔

علی ظفر کا کہنا تھا کہ انہیں پہلے دن سے معلوم تھا کہ ان پر کیوں الزام لگایا گیا اور وہ یہی راز عدالتوں کے ذریعے سامنے لانا چاہتے تھے لیکن ان کی امیدوں کے برعکس کئی سال تک عدالتوں میں کیس چلتا رہا لیکن سچ سامنے نہیں آیا تو انہوں نے بتانا شروع کیا کہ انہیں پہلے ہی دھمکیاں دی گئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنا موقف پیش کرنے کے لیے بھارتی اخبار انڈیا ٹوڈے کے ایک صحافی کی مدد لی، انہیں اپنی پوری کہانی بتائی اور کچھ شواہد پیش کیے، جس کے بعد دیگر میڈیا والوں نے بھی دوسرا رخ دیکھنا شروع کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں