سینیٹ نے سر عام پھانسی کی سزا سے متعلق بل کو کثرت رائے سے مسترد کر دیا ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس منعقد ہوا، سینیٹر مشتاق احمد نے فوجداری قوانین میں ترمیم کا بل پیش کیا کہ ریپ کے مجرموں کو سر عام پھانسی دی جائے، سینیٹ نے بل پیش کرنے کی تحریک مسترد کر دی, بل پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 14 اور مخالفت میں 24 ووٹ آئے, (ن) لیگ، پاکستان تحریک انصاف، پیپلز پارٹی سمیت دیگر پارٹیوں نے بل کی مخالفت کی۔

سینیٹر شیری رحمٰن نے سینیٹر مشتاق احمد کی پاکستان پینل کوڈ اور کریمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشنز میں مجوزہ ترامیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کی میں نے کمیٹی میں بھی مخالفت کی تھی، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ سزائے موت کی سزا کی مخالفت کی ہے۔

رہنما پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ریپ ایک سنگین اور سنجیدہ جرم ہے، لیکن سر عام پھانسیوں سے معاشرے میں بربریت اور تشدد پسند سوچ میں اضافہ ہوگا، سرے عام پھانسی سے کسی ملک میں ریپ کا جرم ختم نہیں ہوا ہے، سرے عام پھانسی ایک جرم کے لیے رکھی جائے گی تو دوسرے جرائم کے لیے بھی اس سزا کا مطالبہ کیا جائے گا۔

سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں استغاثہ، پولیس اور تفتیش کے پہلے ہی مسائل ہیں، سزائے موت کی سزا کے حوالے سے پاکستان کا پانچواں نمبر ہے، کیا اس سے جرم رکا ہے؟ سرعام پھانسی اکیسویں صدی کے معاشرے کو زیب نہیں دیتی ہے، سرعام پھانسی سے جرم نہیں رکے گا بلکہ اس کے معاشرے پر دوسرے اثرات مرتب ہوں گے۔

سینیٹر تاج حیدر نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے بتایا کہ کہ سرعام پھانسی دینے سے انسانیت کا احترام ختم ہوگا۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اسحٰق ڈار نے بتایا کہ (ن) لیگ سرعام پھانسی کے قانون کے حق میں نہیں ہے، قانون میں سزائے موت موجود ہے، سر عام پھانسی کا بل کسی طرح مناسب نہیں ہے سر عام پھانسی نہیں ہونی چاہیے ۔

’یہ بل معاشرے کو مزید ظالم بناتا ہے‘

سینیٹر عرفان صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ ہم موت کی سزا ختم نہیں کرناچاہتے ہیں لیکن موت کی سزا کوپھانسی گھاٹ تک ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے، اسے فوارا چوک یا میلوڈی چوک تک نہیں لائیں، ہمارے بارے میں دنیا میں منفی تاثر پایا جاتا ہے، جرائم پر کڑی سزا ضرور ملنی چاہیے، لیکن دنیا میں کہیں ایسا تماشا نہیں ہوتا، سر عام پھانسی سے مثبت تاثر نہیں جائے گا، معاشرے میں سفاکی بڑھے گی، سر عام پھانسی کا اسلامی ملک میں تصور نہیں ملتا ہے۔

سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ موجودہ قانون میں سزائے موت ہے ، اس کی ہم حمایت کرتے ہیں لیکن سر عام پھانسی کی آج کل کے زمانے اور معاشرے میں ضرورت نہیں ہے ۔

سینیٹر سعدیہ عباسی کے مطابق یہ بل معاشرے کو مزید ظالم بناتا ہے، سینیتر شہادت اعوان کا کہنا تھا کہ کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے کہا کہ سر عام پھانسی انسان کی وقار کے خلاف ہے ۔

سینیٹر طاہر بزنجو نے اس معاملے پر مجرمان کی اصلاح اور تربیت کرنے پر زور دیا، متعدد سینیٹرز نے مؤقف اپنایا کہ ایسے بل اسلامی قوانین اور بین الاقوامی ضوابط کے خلاف ہیں۔

سینیٹر کامل علی آغا نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں سرعام پھانسی دی جاتی ہے، امریکا میں سزائے موت انجیکشن لگا کر دی جاتی ہے اور اس کی ویڈیو پبلک کی جاتی ہے، سعودی عرب میں سر عام سر قلم کیا جاتا ہے، وہاں جرائم کی شرح اور اپنے ملک میں دیکھ لیں، جس شخص نے یہ گھناؤنا جرم کیا اس کی کیا کوئی عزت ہے؟

’یہ بل ایک بڑے مسئلے کا حل ہے‘

سینیٹر ہمایوں مہمند کا کہنا تھا کہ یہ بل ایک بڑے مسئلے کا حل ہے، سعودی عرب میں ریپ بہت کم اور مغربی ممالک میں بہت زیادہ ہے، یہ جرم میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ یہ کہتے ہیں سزا سے سفاکی بڑھے گی، سفاکی تو بڑھ چکی ہے، میں تو سر عام پھانسی دے کر سفاکی کو روکنا چاہتا ہوں، موٹر وے ریپ کیس کی خاتون، زینب کی عزت نہیں تھی؟ لیکن ریپ کرنے والے کی عزت ہے، سر عام پھانسی رکاوٹ کا کام کرے گا، اسلام آباد اور چاروں صوبائی دارالحکومت میں اپ 5 لوگوں کو سر عام پھانسی دے دیں ، پھر مزید سر عام پھانسی کی ضرورت نہیں پڑے گی، یورپ اور امریکا سے نہ ڈریں، مولانا فیض محمد نے کہا ہے کہ قرآن نے کہا کہ سب کے سامنے سزا ہو، چھپا کر سزا دینا تو قران کی رو کے خلاف ہے، سزا تو سرعام ہونی چاہیے۔

بعد ازاں سینیٹ نے سر عام پھانسی سے متعلق بل کو کثرت رائے سے مسترد کردیا۔

’35 سے 50 فیصد پانی سمندر میں ضائع ہو جاتا ہے‘

اس کے علاوہ سینیٹ اجلاس میں ملک میں آبی وسائل ، سیلابوں اور پانی کی بد انتظامی کے حوالے سے تحریک پر بحث کی گئی۔

اس معاملے پر سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ 35 سے 50 فیصد پانی سمندر میں ضائع ہو جاتا ہے، ہمارے پاس دریائے سندھ، قدرتی وسائل موجود ہیں لیکن ہم نے انہیں استعمال نہیں کیا، دریاؤں میں پانی کی کمی کیوں آئی ہے؟ کہیں بھارت تو ہمارے وسائل کو استعمال نہیں کر رہا؟

ان کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک میں ضائع ہونے والے پانی کو محفوظ بنانے کے لیے پلاننگ کی جاتی ہے، 2010 میں جو سیلاب آیا تھا اس میں 43 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا، کیا یہ کہنا مناسب ہو گا کہ بھارت نے پانی چھوڑ دیا ہے؟

سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ ہمارے پاس بہت بڑا ایریا ہم اسے استعمال کر سکتے ہیں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کہتا ہے 1.2، 1.3 ہیڈرو بجلی استعمال کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سندھ کو پنجاب سے شکایت ہے کہ جب ہم پانی مانگتے ہیں تو گڈو سے پانی پہنچنے تک 7 روز لگ جاتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں