وزیراعظم شہباز شریف نے چیئرمین انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کی تقرری کا نوٹی فکیشن واپس لے لیا۔

ڈان نیوز کے مطابق وزیراعظم نے گریڈ 22 کے ریٹائرڈ افسر ظفر محمود کو چیئرمین ارسا تعینات کیا تھا، وزیراعظم آفس نے چیئرمین ارسا کی تقرری کا نوٹی فکیشن واپس لینے کا حکم نامہ جاری کردیا۔

قبل ازیں، وزیر آبپاشی سندھ جام خان شورو نے بتایا تھا کہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اور وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ میں رابطہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے چیئرمین ارسا کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن واپسی لینے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔

وزیر آبپاشی سندھ جام خان شورو نے بتایا کہ وزیر اعلی سندھ نے مؤقف اپنایا کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) میں طے ہو چکا ہے، کہ چیئرمین کی تعیناتی روٹیشن کی بنیاد صوبوں کے ممبر سے ہوگی۔

جام خان شورو کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم پاکستان نے وزیر اعلی سندھ اور محکمہ آبپاشی سندھ کے مؤقف کو مان لیا ہے۔

متنازع شخص کی بطور چیئرمین ارسا تعیناتی برداشت نہیں کریں گے، وزیراعلیٰ سندھ

قبل ازیں، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے متنازع شخص کو چیئرمین مقرر کیا ہے۔

کراچی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین ارسا کی تعیناتی کا نوٹی فکیشن واپس کرائیں گے، متنازع شخص کی بطور چیئرمین ارسا تعیناتی برداشت نہیں کریں گے۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ کے عوام سے نا انصافی برداشت نہیں کریں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سندھ میں امن وامان کی صورتحال تسلی بخش ہے، نگران دور میں امن وامان کی صورتحال زیادہ خراب ہوئی، امن وامان کی صورتحال بہتر کرنا ہماری پہلی ترجیحی ہے۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ امید ہے نئے وزیرخزانہ ملک کو مشکلات سے نکالنے میں کردار ادا کریں گے، مزید کہنا تھا کہ چیئرمین انٹربورڈ نسیم میمن کے معاملے کو دیکھ رہا ہوں۔

واضح رہے کہ ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک 22ویں گریڈ کے سابق وفاقی سیکرٹری ریٹائرڈ افسر ظفر محمود کو انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کا چیئرمین مقرر کر دیا ہے، خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ یکطرفہ فیصلہ صوبوں کو وفاق کے خلاف کھڑا کر سکتا ہے۔

ارسا دراصل 5 رکنی واٹر ریگولیٹر ہے، یہ 5 اراکین چاروں صوبوں اور وفاق کی نمائندگی کرتے ہیں، ارسا کے سابق چیئرمین عبدالحمید مینگل کا تعلق بلوچستان سے تھا۔

اس فیصلے سے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور صدر آصف علی زرداری کی جماعت پیپلزپارٹی کے درمیان دراڑ پیدا ہونے کا بھی امکان ہے کیونکہ اس کے نئے اسٹرکچر سے بظاہر ارسا کی آزاد حیثیت متاثر ہوتی ہے۔

ظفر محمود کی تعیناتی متنازع ارسا ترمیمی آرڈیننس 2024 کے تحت کی گئی، جسے اُس وقت کے صدر عارف علوی نے تحفظات کے ساتھ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو واپس بھیج دیا تھا، تاہم اُس کے بعد کیا ہوا؟ یہ تاحال ایک معمہ ہے۔

گزشتہ روز قومی اسمبلی میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے چیئرمین کی یکطرفہ تعیناتی پر اہم اتحادی جماعت پیپلزپارٹی نے بھی مسلم لیگ (ن) کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں