ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے نفاذ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذہبی آزادی کا احترام، قومیت کے لیے برابری کا سلوک بنیادی جمہوری اصول ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے میتھیو ملر نے کہا کہ امریکا میں بھارت کے شہریت ترمیمی ایکٹ کے نوٹیفیکشن پر تشویش ہے ہم اس ایکٹ کی قریب سے نگرانی کررہے ہیں کہ اسے کیسے نافذ کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مذہبی آزادی کا احترام، قومیت کے لیے برابری کا سلوک بنیادی جمہوری اصول ہے۔

اس دوران امریکی کانگریس کمیٹی میں پاکستان میں انتخاب سے متعلق سوال بھی کیا گیا جس پر انہوں نے واضح کیا کہ امریکی امور خارجہ کی کمیٹی میں پاکستان انتخاب سے متعلق سماعت 20 مارچ کو ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو کو امریکی کارنگریس نے طلب کر رکھا ہے۔

ایک صحافی نے سوال کیا کہ ڈونلڈ لو کی طلبی کو آپ کیسا دیکھ رہے ہیں، جس پر میتھیو ملر نے جواب دیا کہ کانگریس سماعت میں محکمہ خارجہ کے اہلکار پیش ہوتے رہتے ہیں۔

ترجمان محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے مزید کہا کہ ہم اسے اپنی ذمہ داریوں کے اہم حصے کے طور پر دیکھتے ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری گواہی سے کانگریس کو پالیسی سازی کے نقطہ نظر اور نگرانی کے لیے کام کرنے میں مدد ملتی ہے۔

سابق وزیرِاعظم عمران خان کی جانب سے ڈونلڈ لو پر پی ٹی آئی حکومت گرانے کا الزام اور دھمکی سے متعلق سوال پر میتھیو ملر نے کہا کہ ڈونلڈ لو کےخلاف الزامات جھوٹے ہیں، یہ بات ہم کئی بار کہہ چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سرکاری اہلکاروں کو ملنے والی کسی بھی دھمکی کو سنجیدگی سے لیتے ہیں، سفارت خانوں کی حفاظت اور سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی مذمت کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی برائے خارجہ امور کی ایک ذیلی کمیٹی پاکستان میں انتخابات، جمہوریت کے مستقبل اور پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے موضوع پر سماعت کرے گی، س کی صدارت کانگریس مین جو ولسن کریں گے۔

بھارتی شہریت کا متنازع قانون کیا ہے؟

واضح رہے کہ مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت نے پیر کو شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کو نافذ کرنے کے لیے قوانین متعارف کرائے تھے، جس کے مطابق مرکزی حکومت 31 دسمبر 2014 سے قبل بنگلا دیش، پاکستان اور افغانستان سے بھارت ہجرت کرنے والے ہندوؤں، پارسیوں، سکھوں، بدھ مت اور جین مت کے پیروکاروں اور مسیحیوں کو شہریت دے سکتی ہے۔

مذکورہ قانون کے خلاف 2019 میں بدترین احتجاج ہوا تھا اور مذہبی فسادات برپا ہوئے تھے، جس کے نتیجے میں درجنوں مسلمانوں کو قتل کردیا گیا تھا اور اسی وجہ سےاس قانون پر عمل درآمد میں تاخیر کردی گئی تھی۔

متنازع قانون کے نفاذ کے خلاف بھارت میں مظاہرے شروع ہوئے تھے، مظاہرین نے مودی حکومت کے خلاف نعرے بھی لگائے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں