عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کی جانب سے دائر ہرجانے کے کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شوکت یوسف زئی نے پشاور کی عدالت کے 15 کروڑ روپے ہرجانہ ادا کرنے کے حکم کو چیلنج کردیا۔

شوکت یوسف زئی نے ایڈیشنل سیشن جج اعجاز الرحمٰن کی عدالت میں درخواست دائر کردی، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ یک طرفہ فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ یک طرفہ کارروائی روکنے کے لیے پہلے بھی درخواست دی تھی، استدعا کی گئی کہ فیصلہ کالعدم قرار دیکر صفائی کا موقع دیا جائے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز (18 مارچ) پشاور کی مقامی عدالت نے اسفندیار ولی کی جانب سے دائر ہرجانے کے کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شوکت یوسف زئی کو 15 کروڑ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

شوکت یوسف زئی نے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی پر 25 ملین ڈالر کے عوض پختونوں کو بیچنے کا بیان دیا تھا۔

اسفندیار ولی نے دسمبر 2019 میں شوکت یوسف زئی کے خلاف 15 کروڑ روپے ہرجانے کا کیس دائر کیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ شوکت یوسف زئی طلبی کے باوجود عدالت میں پیش نہیں ہوئے، ان کی عدم پیشی پر یکطرفہ کارروائی کی گئی۔

واضح رہے کہ 31 جولائی 2019 کو عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے اُس وقت کے خیبرپختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی کو قانونی نوٹس بھجوایا تھا، جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ نیوز کانفرنس کے دوران ’ہتک آمیز الزامات‘ لگانے پر معافی مانگیں۔

ڈان اخبار کے مطابق انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر وہ معافی نہیں مانگتے تو ان کے خلاف 10 کروڑ روپے کا ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا جائے گا۔

اے این پی رہنما نے ہتک عزت آرڈیننس 2002 کے سیکشن 8 کے تحت نوٹس جاری کیا تھا۔

نوٹس میں کہا گیا تھا کہ اپوزیشن رہنماؤں پر تنقید کرتے ہوئے شوکت یوسفزئی نے اسفندیار ولی خان پر الزام لگا کر بدنام کیا کہ انہوں نے 25 ملین ڈالر کے عوض پشتونوں کو فروخت کیا ہے۔

مزید کہا گیا تھا کہ کوئی ثبوت، بنیاد یا جواز کا ذکر کیے بغیر انہوں نے براہ راست رہنما اے این پی پر توہین آمیز زبان میں الزام لگایا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں