وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہم سرحد پار سے کسی بھی قسم کی دہشتگردی کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کریں گے۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا ہے کہ آج ہم سب سے پہلے شہدا اور ان کے عظیم والدین اور اہل خانہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کہ جن کے سپوتوں نے بڑی جرات اور بہادری سے دہشت گردوں کا چند دن پہلے مقابلہ کیا اور ان تمام دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا اور ساتھ جام شہادت نوش کیا۔

شہباز شریف نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ وطن کے ساتھ اس سے والہانہ محبت، قربانی اور ایثار کا اور کوئی مثال نہیں دی جاسکتی، اس موقع پر شہدا کے لیے قرآن خوانی کی گئی۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی جو کہ آج سے 10، 15 برس پہلے سر اٹھایا تو عظیم قربانیوں کے نتیجے میں مکمل طور پر اس کا صفایہ کر دیا گیا، اور میرا خیال ہے کہ عصرحاضر کے دور میں شاید دنیا میں کوئی اور دوسری مثال ملتی ہو۔

انہوں نے کہا کہ تقریباً 70، 80 ہزار پاکستانیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، جس میں افواج پاکستان کے افسرا، سپاہی، ان کے بچے، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے اس قربانی میں حصہ لیا۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پھر چند سال پہلے دہشتگردی نے سر اٹھایا، حقیقت یہ ہے کہ اتنی عظیم قربانیوں کے بعد اور بے پناہ توانائیاں خرچ کرنے کے بعد دہشتگردی کا واپس آنا کسی بھی المیے سے کم نہیں، اب دوبارہ اس کا سر کچلنے کے لیے یہی شہید اور غازی ہتھیلی پر جان رکھ کر ان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں چند دن قبل لیفٹنٹ کرنل کاشف شہید اور کیپٹن احمد بدر شہید کے والدین اور گھر والوں سے ملنے گیا، یقین کریں، ان کے حوصلے نے میرا ایمان تازہ کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے انہیں یقین دلایا ہے کہ حکومت پاکستان اور افواج پاکستان مل کر اس دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کا پورا عزم رکھتے ہیں، اور یہ ہو گا انشا اللہ، اس کے ساتھ ساتھ ان کو یقین دلایا ہے کہ سرحد پار سے جو دہشت گردی ہو رہی ہے، اس کو اب ہم برداشت نہیں کرسکتے، پاکستان کی سرحدیں دہشت گردی کے خلاف ریڈلائن ہیں۔

’ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن کے ماحول میں رہنا چاہتے ہیں‘

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہم اپنے ہمسایہ برادر ممالک کے ساتھ انتہائی امن کے ماحول میں رہنا چاہتے ہیں، ہر قسم کے باہمی تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں، لیکن اگر بدقسمتی سے ہمسایہ ملک کی زمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہوگی تو اب یہ قابل برداشت نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات بڑی واضح رہنی چاہیے کہ ہم سرحد پار سے کسی بھی قسم کی دہشتگردی کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کریں گے، میں ہمسایہ ممالک سے گزارش کروں گا کہ آئیں بیٹھیں، مل کر دہشت گردی کے خلاف لائحہ عمل تیار کریں، جس کو سنجیدگی کے ساتھ اس کے خاتمے کے لیے مل کر کام کریں گے تو اس سے بہتر خطے میں امن قائم کرنے کے لیے غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے اور کوئی لائحہ عمل نہیں ہوسکتا۔

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ اس حوالے سے ہمسایہ ممالک ان کے ارباب اختیار میری اسی تجویز کو غور سے لیں گے اور مل کر خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے۔

شہباز شریف کا عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے سے متعلق بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جو بات ہوئی ہے، وزیر خزانہ اس پر آپ کو اعتماد میں لیں گے۔

’رول اوور اور مزید قرضے پاکستان کیلئے انتہائی نقصان دہ ہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی ٹیم آئی ہوئی ہے، آئندہ بھی ہمیں ایک نئے پروگرام کی ضرورت ہے، خوشی کے ساتھ نہیں مجبوری میں، ہمیں اپنی معاشی فاؤنڈیشن کو بحال کرنا ہے، اس کو ہمیں پاؤں پر کھڑا کرنا ہے، اور قرضوں سے جان چھڑانی ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ ابھی تک میرے جتنے بھی برادر ممالک اور دوست ممالک کے سفارتکاروں سے ملاقات ہوئی ہے، میں نے انتہائی عاجزی کے ساتھ مگر واضح انداز میں ان کو گزارش کی کہ ہم اب آپ کے ساتھ سرمایہ کاری، چاہے وہ زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، صنعتی ادارے ہیں، یہ وہ شعبے میں جہاں پر ہم کام کرر ہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ان سے کہا کہ قرضوں میں توسیع اور مزید قرضے یہ پاکستان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں، اور ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ ہم کوشش کریں گے کہ کم سے کم قرضے لیں، آہستہ آہستہ ہم قرضوں سے جان چھڑا لیں گے، اس کا واحد طریقہ ہے کہ ہم سرمایہ کاری لے کر آئیں اور اس کے لیے پاکستان کے ماحول کو سازگار بنائیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ اس حوالے سے ہماری گزشتہ پارلیمان میں میثاق معیشت کی پیش کش تھی، اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یکجہتی کا چارٹر بھی پیش کرنا چاہیے، مل کر پاکستان کو چیلنجز سے نکالنے کے لیے یکجہتی اور معاشی ترقی یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں، اس کے لیے بڑی تیزی کے ساتھ کام ہو رہا ہے۔

’2400 ارب روپے کے محصولات کے مقدمات چل رہے ہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ 2400 ارب روپے کے محصولات یا تو ٹریبونلز کے پاس ہیں، یا عدالتوں میں ان کے مقدمات چل رہے ہیں، میں نے وزیر قانون سے گزارش کی ہے کہ ان ٹریبونلز سے میٹنگ کریں، کہیں کہ انصاف کی بنیاد پر جلد سے جلد فیصلہ کریں، اسی طریقے سے چیف جسٹس آف پاکستان کی خدمت میں ملتمس ہوں کہ مہربانی کرکے تمام ہائی کورٹس کو یہ فرما دیں کہ جو کیسز ہیں، ان کا جلد سے جلد میرٹ پر فیصلہ ہو جائے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ دوسری بات یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ایف بی آر کو 100 فیصد ڈیجیٹائز کرنے کے لیے آخری میٹنگ کر لی ہے، 8 اپریل کو کنسلٹنس کی بڈز آ جائیں گی، اسے اچھی طرح دیکھنے کے لیے مزید ایک ہفتہ لگے گا، اپریل کے تیسرے اور چوتھے ہفتے میں کنسلٹنٹس کا تقرر ہو جائے گااور 100 فیصد ڈیجیٹائز ہونے کا عمل شروع ہو جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ مافیاز مل کر اربوں، کھربوں روپے جو خزانے کے کھائے جا رہے ہیں، باہر کے ممالک میں اربوں ڈالر جمع ہوئے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں، اس کے لیے وزیرخزانہ اور ایف بی آر کو گزارش کی ہے کہ وہ ایسے افسران کی لسٹیں بنائیں جو انتہائی فرض شناس ہیں، اور جن لوگوں نے اس بگاڑ میں بھیانک کردارا دا کیا ہے، ان کے خلاف کارروائی ہوگی تاکہ جزا اور سزا کا عمل فوری طور پر معرض وجود میں آئے۔

شہباز شریف نے کہا کہ حکومت کے جو شاہانہ اخراجات ہیں، اس کے لیے کمیٹی بنا چکا ہوں کہ کس طرح اخراجات کم کرسکتے ہیں، وہ کم کرنے ضروری ہیں، کئی ایسے محکمے ہیں، جن کی ضرورت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سال کی 400 سے 500 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے، اسی طرح گیس کی بھی چوری ہوتی ہے، میں نے متعلقہ وزرا کو کہا ہے کہ آپ کو فی الفور بجلی و گیس کی چوری کا مکمل خاتمے کا منصوبہ دینا ہوگا، اور اس پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہو گی۔

شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اگلے پروگرام پر بھی بات چیت کرنی ہے، اور وہ واضح کہہ رہے ہیں کہ ٹیکس بیس بڑھانا ہے، اسے بڑھانا ایک بنیادی ذمہ داری ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں