اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) صرف سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے سائفر کی کاپی واپس نہ کرنے پر تحقیقات کیوں کر رہی ہے جبکہ سائفر کی کاپی وصول کرنے والے دیگر فریقین کو ایسا ہی کرنے کے باوجود نظرانداز کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس عامر فاروق کی زیرِسربراہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ کے رکن جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے یہ ریمارکس عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت کے دوران دیے۔

وکیل دفاع بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ خفیہ سائفر کی کاپی صدر، وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری، سیکریٹری خارجہ، آرمی چیف، ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، چیف جسٹس آف پاکستان اور کابینہ سیکریٹری سمیت 8 اعلیٰ عہدیداران کو بھیجی گئی تھی، تاہم اکتوبر 2022 میں جب انکوائری شروع ہوئی تو وصول کنندگان میں سے کسی نے بھی سائفر کی کاپی دفتر خارجہ کو واپس نہیں کی۔

بیرسٹر سلمان صفدر کے مطابق ایف آئی اے اُس وقت کے آرمی چیف، چیئرمین سینیٹ اور دیگر وصول کنندگان کو نوٹس جاری کر سکتی تھی لیکن ایف آئی اے نے اس کیس میں صرف عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو ہی نامزد کیا۔

عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے وزارت خارجہ کا خط پیش کیا جس میں سائفر کی لین دین سے متعلق تفصیلات درج کی گئی تھیں، اس کے مطابق زیادہ تر وصول کنندگان نے ایک سال سے زیادہ عرصے تک سائفر کی کاپیاں اپنے پاس رکھیں اور انہیں صرف تب واپس کیا جب سابق وزیراعظم اور سابق وزیرخارجہ کے خلاف باقاعدہ طور پر کارروائی شروع ہوچکی تھی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا ایف آئی اے کو علم ہے کہ دیگر وصول کنندگان نے کاپیاں واپس نہیں کیں؟ بیرسٹر سلمان صفدر نے جواب اثبات میں دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے کو تمام وصول کنندگان کو کال اپ نوٹس جاری کرنے چاہیے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ان سے استفسار کیا کہ وہ وجوہات بتائیں جن کی بنا پر ایف آئی اے نے باقی سب کو چھوڑ کر سائفر کی کاپیاں وصول کرنے والے صرف 2 فریقین پر توجہ مرکوز رکھی؟

بیرسٹر سلمان صفدر نے جواب دیا کہ اس سے ہمارے خلاف محدود کارروائی، سیاسی انتقام پر مبنی مقدمات، طاقت کا استعمال اور ناقص تفتیش کا عنصر ظاہر ہوتا ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ بظاہر یہ ایک ’پک اینڈ چُوز‘ معاملہ ہے، انہوں نے قانون میں ایسے کیسز کے لیے مثالیں بھی مانگیں۔

وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سائفر کی لین دین کے دستاویزی ثبوت وزارت خارجہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے پیش کیے، جو اس ریکارڈ کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا اس عہدیدار سے وکیل دفاع نے جرح کی؟ بیرسٹر سلمان نے جواب میں انکار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کے مقرر کردہ وکیل نے مذکورہ گواہ پر جرح کی ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ایک روز قبل سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہونے کی اجازت مانگنے والے ایڈووکیٹ جنرل نے عدالتی معاونت کے لیے کسی کو بھی تعینات نہیں کیا۔

انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ عدالت وفاقی حکومت کو خط لکھے گی کہ ایڈووکیٹ جنرل مناسب انداز میں معاونت فراہم نہیں کر رہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے دلیل دی کہ استغاثہ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر امریکا کے ساتھ پاکستان کے دوستانہ تعلقات کو خراب کرنے کا الزام بھی عائد کیا، تاہم استغاثہ نے الزام کو ثابت کرنے کے لیے عدالت کے سامنے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں