اسرائیلی جیل میں قید نامور فلسطینی ناول نگار اور کارکن ولید دقع، جو کینسر کے مرض میں مبتلا تھے، اسرائیل کے شامیر میڈیکل سینٹر میں انتقال کر گئے۔

قطری نشریاتی ادارہ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ولید دقع 38 سال تک اسرائیلی جیل میں قید رہے، وہ اگلے ایک سال بعد رہا ہونے والے تھے، ان کی موت اسرائیل جیل انتظامیہ کی جانب سے بیماری فلسطینیوں کے خلاف ’سلو کلنگ‘ (slow killing) کے نتیجے میں ہوئی۔

فلسطینی سرکاری خبر رساں ایجنسی وفا نے ولید دقع کو فریڈم فائٹر’ (freedom fighter) قرار دیا جبکہ حماس نے کہا ہے کہ وہ ان کی موت کی خبر کے بعد ’دیگر فلسطینی قیدیوں کی رہائی تک ان کے ساتھ کھڑے ہیں‘۔

اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر برائے قومی سلامتی اتامیر بین نے کہا کہ اسرائیل ولید دقع کو دہشت گرد سمجھتا ہے، ان کی موت پر اسرائیل کو کوئی افسوس نہیں ہے۔

ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں انہوں نے کہا کہ ولید دقع کی قدرتی موت ہوئی ہے اور ان کی موت دہشت گردوں پر عائد سزا کے تحت نہیں ہوئی۔

ولید دقع اسرائیل کی حراست میں سب سے نامور اور طویل عرصے سے قید فلسطینی قیدیوں میں سے ایک ہے، انہیں اسرائیل نے 1986 میں ایک اسرائیلی فوجی کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور تب سے وہ جیل میں ہے۔ جیل میں رہتے ہوئے انہوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں بچوں کی کہانی بھی شامل ہے۔

1999 میں انہوں نے سلاخوں کے پیچھے رہتے ہوئے شادی بھی کی، گزشتہ سال فلسطینی قیدیوں کی حمایت کرنے والے حقوق کے گروپ ادمیر نے کہا کہ ولید دقع کی فوری طبی امداد کی ضرورت ہے، اسرائیل علاج کروانے سے انکار کررہا ہے اور ساتھ ہی ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔

بعدازاں اسرائیل نے ولید دقع کو 2025 تک رہا کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے انہیں جلد جیل سے رہا کرنے سے انکار کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں