ملائیشین ائیرلائنز کے لاپتہ جہاز کی گتھی نہ سلجھ سکی

اپ ڈیٹ 10 مارچ 2014
ایک مذہبی تنظیم کے اراکین مختلف مذاہب کی جانب سے لاپتہ جہاز کے مسافروں کے لیے منعقدہ دعائیہ تقریب میں دعا کررہے ہیں۔ —. فوٹو رائٹرز
ایک مذہبی تنظیم کے اراکین مختلف مذاہب کی جانب سے لاپتہ جہاز کے مسافروں کے لیے منعقدہ دعائیہ تقریب میں دعا کررہے ہیں۔ —. فوٹو رائٹرز
ملائیشیا کے لاپتہ جہاز میں سوار ایک مسافر کی رشتہ دار اپنے عزیز کو یاد کرکے رو رہی ہے۔ —. فوٹو رائٹرز
ملائیشیا کے لاپتہ جہاز میں سوار ایک مسافر کی رشتہ دار اپنے عزیز کو یاد کرکے رو رہی ہے۔ —. فوٹو رائٹرز
ویتنامی ایئرفورس کے روسی ساختہ جہاز میں ملائیشیا کی ایئرلائنز کے گمشدہ جہاز کی تلاش کے لیے پرواز سے قبل ایندھن بھرا جارہا ہے۔ —. فوٹو اے ایف پی
ویتنامی ایئرفورس کے روسی ساختہ جہاز میں ملائیشیا کی ایئرلائنز کے گمشدہ جہاز کی تلاش کے لیے پرواز سے قبل ایندھن بھرا جارہا ہے۔ —. فوٹو اے ایف پی
ملائیشین بحریہ کا ایک اہلکار لاپتہ جہاز کی تلاش کے دوران دوربین سے سمندر کا جائزہ لے رہا ہے۔ —. فوٹو اے ایف پی
ملائیشین بحریہ کا ایک اہلکار لاپتہ جہاز کی تلاش کے دوران دوربین سے سمندر کا جائزہ لے رہا ہے۔ —. فوٹو اے ایف پی

کوالالمپور: عالمی خبررساں ادارے اے ایف پی نے خبر دی ہے کہ ملائیشیا ایئرلائنز کے شیئرز میں آج پیر کے روز دس فیصد گراوٹ دیکھی گئی، آج کاروباری دن کے آغاز پر ہی اس کمپنی کو یہ جھٹکا لگا۔ پچھلے اختتامِ ہفتہ کو اس ایئرلائن کا طیارہ جس میں 239 مسافر عملے سمیت سوار تھے، لاپتہ ہوگیا تھا۔

آج صبح ملائیشین اسٹاک ایکسچینج میں ملائیشیا ایئر لائنز کے شیئرز کا کاروبار 0.225 رنگٹ (ملائیشین کرنسی) یا دس فیصد کم پر شروع ہوا۔

ملائیشیا کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے کہا ہے کہ ملائیشیا ایئر لائنز کے طیارے کے لاپتہ ہونے کی گتھی اب تک سلجھائی نہیں جا سکی ہے۔

تیس سے زیادہ ہوائی جہاز اور چالیس بحری جہاز، اس لاپتہ طیارے کی دن رات تلاش میں مصروف ہیں۔ بعض اطلاعات میں کہا گیا تھا کہ ویت نام کے ایک طیارے کو جنوبی چائنا سی میں کچھ ملبہ نظر آیا ہے ۔ لیکن اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی تھی کہ یہ ملبہ ملائیشیا ایئر لائنز کے اسی لاپتہ طیارے کا ہے، جس نے 239 مسافروں کو لے کر ہفتہ کے روز کوالالمپور سے بیجنگ کے لیے پرواز کی تھی۔

اس کے علاوہ ریڈار کے اعداد و شمار سے یہ اشارہ بھی ملا تھا کہ اس طیارے نے پرواز کے بعد شاید ملائیشیا کی جانب واپس آنے کی کوشش کی تھی۔ ریڈار سگنلز سے ایسے اشارے ملے تھے، جن کی بنیاد پر یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ شاید یہ طیارے درمیان راستے سے واپس آنے کے لیے مڑ گیا ہو۔

اسی دوران ملائیشیا ایئر لائنز کے ایک ترجمان نے لاپتہ طیارے میں سوار مسافروں کے اہل خانہ سے کہا کہ اب انہیں بری سے بری خبر کے لیے تیار رہنا چاہیٔے۔

یہ بھی معلوم ہوا کہ ملائیشیا کی خفیہ ایجنسی لاپتہ طیارے میں سوار مسافروں کی فہرست کی تحقیقات کر رہی ہے۔

ملائیشیا کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر اظہر الدین عبدالرحمان کا کہنا ہے ’’طیارے میں دو ایسے مسافر بھی سوار تھے جن کے پاسپورٹ جعلی تھے۔ ہمارے پاس ان مسافروں کے سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہیں، جنہیں مزید تفتیش میں استعمال کیا جا رہا ہے ۔‘‘

اب ایک طرف ، لاپتہ طیارے کی تلاش جاری ہے اور دوسری طرف پوری جانچ ان دو افراد کے اردگرد گھوم رہی ہے، جو جعلی پارسپورٹ کے ذریعہ جہاز میں سوار ہوئے تھے۔

لیکن بین الاقوامی پولیس تنظیم انٹرپول کا کہنا ہے کہ جعلی پاسپورٹ اور ہوائی جہاز کے لاپتہ ہونے کے درمیان کوئی تعلق ہونے کے بارے میں کسی طرح اندازہ قائم کرنا ابھی قبل از وقت ہوسکتا ہے۔

ملائیشیا مسلح افواج کے سربراہ جنرل ذوالکفیل محمد کے مطابق 40 بحری جہاز اور 22 طیارے ان دو علاقوں میں اپنی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں جہاں لاپتہ طیارے کے ساتھ حادثے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ مشتبہ مسافر اٹلی اور آسٹریا کے شہری ہیں، جنہوں نے جعلی پاسپورٹ کے ذریعے دونوں ٹکٹ ایک ساتھ خریدے تھے۔ ان دونوں مسافروں نے بیجنگ سے یورپ جانے کے لیے اگلی پروازوں کے لیے ٹکٹ بھی ایک ساتھ ہی خریدے تھے۔ جن پاسپورٹوں سے ٹکٹ خریدے گئے تھے، انہیں حالیہ برسوں میں تھائی لینڈ میں چوری کیا گیا تھا۔

اس سے پہلے ملائیشیا کے وزیر اعظم نجیب رزاق سے جب طیارے کے لاپتہ ہونے کے پس پردہ شدت پسندوں کے منصوبوں کے خدشات کے بارے میں سوال کیا گیا، تو انہوں نے کہا تھا کہ’’ہم تمام پہلوؤں کو دیکھ رہے ہیں، لیکن فی الحال کسی نتیجہ پر پہنچنا جلد بازی ہوگی ۔‘‘

ایشیا پیسیفک ایئر لائنز یونین کے ڈائریکٹر جنرل اینڈریو ہرڈیمن نے اسے ایک غیر معمولی حادثہ قرار دیا ہے۔

اینڈریو کا کہنا ہے کہ ’’یہ حادثہ ایک راز بن گیا ہے۔ طیارے سے رابطہ کٹ گیا اور اب کئی ملک اس کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں، لیکن ابھی تک یہ پتہ نہیں چل پایا ہے کہ طیارے کے ساتھ آخر ہوا کیا تھا۔‘‘

یاد رہے کہ 2009ء میں ایئر فرانس کا ایک طیارہ بحر اوقیانوس پر پرواز کرتے ہوئے غائب ہو گیا تھا، اس حادثے کی وجہ جاننے میں تین سال کا وقت لگ گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں