میکال حسن بینڈ — عہدِ جدید کا تان سین

21 جنوری 2015
میکال حسن بینڈ اور شریمیستھا چیٹرجی — فوٹو بشکریہ میکال حسن بینڈ
میکال حسن بینڈ اور شریمیستھا چیٹرجی — فوٹو بشکریہ میکال حسن بینڈ
محمد احسن پپو — فوٹو بشکریہ میکال حسن بینڈ
محمد احسن پپو — فوٹو بشکریہ میکال حسن بینڈ
حمیرا چنہ میکال حسن بینڈ کے ساتھ پرفارم کرتے ہوئے — فوٹو بشکریہ میکال حسن بینڈ
حمیرا چنہ میکال حسن بینڈ کے ساتھ پرفارم کرتے ہوئے — فوٹو بشکریہ میکال حسن بینڈ

میکال حسن بینڈ پر بات کرنے سے پہلے ”میکال حسن“، جن کے نام پر یہ بینڈ ہے، کا مختصر تعارف ضروری ہے۔ انہوں نے برکلے کالج آف میوزک، بوسٹن، امریکا سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ پاکستان واپس آئے اور عملی طورپر اس پیشے میں قدم رکھا۔ برطانوی موسیقار پیٹر لاکٹ سمیت کئی پاکستانی کلاسیکی گلوکاروں کے لیے کام کیا، پھر اپنا ذاتی اسٹوڈیو بنایا، جہاں اپنے تمام البمز سمیت کئی معروف گلوکاروں کے گیت اور البم ریکارڈ کیے۔

2000 میں انہوں نے ”میکال حسن بینڈ“ تشکیل دیا۔ اس بینڈ کے اب تک 3 البم ریلیز ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں میکال حسن بینڈ اپنی نوعیت کا واحد بینڈ ہے جس نے صوفی کلام کو کلاسیکی موسیقی کی چاشنی میں گھول کر جدید اور لوک آلات موسیقی کے ساتھ تخلیق کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کم مگر معیاری کام کیا، پندرہ برسوں میں صرف تین البم ریلیز کیے، مگر ہر البم کو کامیابی ملی۔

برصغیر کی کلاسیکی موسیقی میں جس طرح تان سین نے کئی دلکش دھنیں تخلیق کیں تھیں اورنئی نئی اختراعات کوجنم دیا تھا، اسی طرح ہمارے خطے میں کلاسیکی اورجدید موسیقی کے ملاپ سے میکال نے منفرد موسیقی تخلیق کی۔ اس خوبی کی بنا پر بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ عہدِ جدید کے تان سین ہیں، کیونکہ انہوں نے ان تمام اصولوں کو اپنے اوپر لاگو رکھا، جن کے دم سے موسیقی کو کلاسیکی اورروایتی کہا جاتا ہے۔

پاکستانی میوزک کی تاریخ میں فیوژن کے انداز کو استاد نصرت فتح علی خان نے متعارف کروایا تھا۔ ان کے بعد کسی نے اگر اس روایت کو حقیقی معنوں میں برقرار رکھا، تو وہ صرف ”میکال حسن بینڈ“ ہے۔ اب اس بینڈ کو ایک اور اعزاز بھی حاصل ہوگیا ہے، وہ یہ کہ ان کا بینڈ پہلا ”پاک بھارت مشترکہ بینڈ“ ہے، جو پوری دنیا میں دونوں ممالک کی موسیقی کا نمائندہ ہوگا۔ پاکستان سے میکال حسن اورمحمد احسن پپو، جبکہ بھارت سے جینو بنکس، شیلڈن ڈی سلوا اور شرمیستھا چٹرجی اس بینڈ کے اراکین میں شامل ہیں۔

دسمبر 2014 میں انہوں نے پاکستان اوربھارت کا مشترکہ بینڈ بنانے کے بعد نیا البم ”اندولن“ ریلیز کیا۔ عموماً مغرب میں اس طرح کے بینڈ تشکیل دیے جاتے ہیں، جبکہ پاک بھارت کے درمیان بھی موسیقی کا دوطرفہ اشتراک رہا ہے، مگر مشترکہ بینڈ کا خیال اس خطے میں کی گئی پہلی کوشش ہے۔ پاکستان میں کئی گلوکاروں نے بھی اس بینڈ کے ساتھ مختلف ادوار میں گایا، جن میں ریاض علی خان، جاوید بشیر اور اسد عباس شامل ہیں، اب نئے البم کے ساتھ دو مزید گلوکاراؤں کا اضافہ ہوگیا ہے جن میں پاکستان سے حمیراچنا اور بھارت سے شرمیستھا چٹرجی شامل ہیں۔

پڑھیے: ایک پختون اور اس کا الیکٹرک گٹار

میکال حسن بینڈ کا نیا البم ”اندولن“ بھی ان کے گذشتہ دو البموں کی طرح کلاسیکی موسیقی اور لوک شاعری سے مزین اور جدید موسیقی سے آراستہ کیا گیا البم ہے، جس میں 8 خوبصورت گیت تخلیق کیے گئے ہیں، جن میں گھونگھٹ، بھیم، سیوں، مالکونس، سندھی، میگھ اورکنارے شامل ہیں۔ دسمبر2014 میں ریلیز کیے گئے اس البم کے گیت ”گھونگھٹ“ کو مختلف میوزک چارٹس میں نمبر1 قرار دیا گیا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کے البم کو موسیقی کے شائقین پسند کر رہے ہیں۔ البم کا ٹائٹل بھی دیدہ زیب ہے۔

میکال حسن بینڈ کے نئے البم ”اندولن“ کے تمام گیت انڈین کلاسیکی گلوکارہ ”شرمیستھاچترجی“ نے گائے ہیں، البتہ کانسرٹ کے لیے بھارت کی نمائندگی شرمیستھا چٹرجی اور پاکستان کی نمائندگی حمیرا چنا کریں گی۔ مارچ میں میکال حسن بینڈ امریکا پرفارم کرنے جارہا ہے، جس میں یہ بینڈ حمیرا چنا کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کرے گا۔ یہ البم حسب روایت بابا بلھے شاہ، شاہ حسین اور دیگر صوفی کلام سے سجا ہوا البم ہے، جس کے بولوں کو جدید موسیقی میں ماہرانہ طریقے سے پرویا گیا ہے۔

اس نئے البم ”اندولن“ کے حوالے سے میکال حسن نے مجھ سے خصوصی گفتگو کی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انہیں پاک بھارت مشترکہ بینڈ بنانے کا خیال کیسے آیا؟ تو ان کاجواب تھا ”میری یہ کوشش رہی ہے، معیار پر سمجھوتہ نہ کروں۔ کچھ برسوں سے پاکستان میں موسیقی کو کمرشل ازم کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے بہت سے حقیقی فنکار موسیقی کے منظرنامے سے دور ہوگئے۔ پاکستان میں ایک دور تھا، جب طفیل نیازی، روشن آرا بیگم، میڈم نورجہاں جیسے نام دکھائی دیتے تھے اور اب ایک بھی ایسا نام نہیں ملتا۔

میں نے اس رویے کے خلاف عملی احتجاج کیا۔ میں نے سوچا کہ اپنے ملک سے باہر نکل کر دیکھتے ہیں، وہاں مجھے جینو جیسے ماہر فنکار ملے، شرمیستھا چٹرجی جیسی باصلاحیت گلوکارہ ملیں۔ پاک بھارت بینڈ سے نہ صرف فنکار ایک دوسرے کے ملک میں با آسانی پرفارم کرسکیں گے، بلکہ دونوں ممالک کے سیاسی حالات میں بھی تناؤ کم ہوگا کیونکہ فنکار محبت اور امن کے سفیر ہوتے ہیں۔

بھارت سے ان تینوں لوگوں کے فن کا وہی معیار ہے، جس کو میں نے گزشتہ پندرہ برسوں سے قائم رکھا ہوا ہے، لہٰذا اگر پاکستان کی طرف سے حمیرا چنا اور بھارت سے شرمیستھا چٹرجی اس بینڈ میں گلوکارہ ہوں گی، تو یہ دو ممالک کے فنکاروں کے فن کا بھی مظاہرہ ہوگا اور خطے کی موسیقی دنیا بھر میں فروغ پائے گی۔“

ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ ”البم میں حمیرا چنا کی آواز میں ایک بھی گیت نہیں ہے“ تو اس کا جواب انہوں نے یوں دیا، ”اس کی وجہ یہ ہے کہ البم پر کام میرے ساتھ شرمیستھا چٹرجی نے کیا۔ مثال کے طورپر بھیم اورمیگھ کے کمپوزیشنز میں مجھے ان کی معاونت حاصل رہی، اس کے علاوہ بھی انہوں نے کافی کام کیا، لیکن حمیرا چنا کی بھی اس البم میں مجھے اس طرح معاونت حاصل ہے کہ وہ اس البم کے تمام گانے پاکستانی سیٹ اپ کے لیے گائیں گی۔ ویسے بھی وہ بہت سینئر گلوکارہ ہیں، میں ان کا مداح ہوں، ان کے ساتھ کام کرنا میرے لیے خوشی کی بات ہے۔ اس بینڈ کے خیال میں ہم بین الاقوامی سطح پر بھی اپنے خطے کی ثقافت کو فروغ دے سکیں گے۔ ایک دوسرے کے ملک میں جا کر کام کرسکیں گے، کیونکہ اچھی موسیقی دونوں طرف کے عوام سننا چاہتے ہیں۔“

اپنے البم کے حوالے سے میکال حسن نے بہت قیمتی معلومات فراہم کیں۔ وہ بتاتے ہیں ”پہلے گیت گھونگھٹ کو راگ کیروانی میں کمپوز کیا گیا ہے اور بابا بلھے شاہ کا کلام ہے۔ اس کو جاوید بشیر نے کمپوز کیا ہے۔ دوسرا گیت جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے راگ چمپا کلی میں کمپوز کیا گیا۔ بھیم بھی راگ بھیم پلاسی سے لیا گیا ہے، یہ کمپوزیشن استاد نیامت خان سدارنگی کی ہے، جس میں ہمارے بینڈ کا انداز بھی سامعین کو محسوس ہوگا۔ سیوں نی بابا بلھے شاہ کا کلام ہے، جس کو اسی طرز پر کمپوز کیا، جیسے گذشتہ ایک کافی ”جھوک رانجھن“ کو کیا تھا۔ راگ مالکونس کو کمپوز کرتے وقت ہم نے استاد عامر خان اور استاد فیروز خان کی دھن ”آج مورے گھر آیا لے بلما“ کو سامنے رکھا۔ اسی طرح راگ سندھی بیروی اور میگھ کو اپنے بینڈ کے انداز میں کمپوز کیا۔ اس البم کا آخری گیت کنارے، راگ ایمن میں استاد تان رس خان کی خوبصورت کمپوزیشن ہے، جس سے سامعین موسیقی اچھی طرح واقف ہیں، اس کو بھی اپنے انداز میں یہاں پیش کیاہے۔ ہمیں امید ہے کہ معیاری موسیقی سننے والے شائقین ہمارے البم کو پسند کریں گے۔“

مزید پڑھیے: کوک اسٹوڈیو: ساؤنڈ آف نیشن

میکال حسن بینڈ کے گذشتہ 2 البم ”سپتک“ اور”سمپورن“ تھے، جس میں جاوید بشیر نے اپنی آواز کاجادو جگایا تھا۔ ان دونوں البم میں نہ صرف صوفی شعرا کا کلام شامل کیا گیا، بلکہ جدید پنجابی لوک شاعروں کا کلام بھی شامل کیا گیا، جن میں امرتا پریتم کا ”اج آکھاں وارث شاہ نوں“ اور فرحت عباس شاہ کا ”سانول“ تھا۔

اس بینڈ کا دوسرا البم ”سپتک“ 2009 میں ریلیز ہوا تھا، جس میں 11 گیت کمپوز کیے گئے، جبکہ پہلا البم ”سمپورن“ 2004 میں ریلیز کیا گیا تھا، اس میں 8 گیت تھے۔ پاکستان اور انڈیا میں اس انداز کی موسیقی تخلیق کرنے والا یہ واحد بینڈ ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ اس نے اپنی جہتوں میں اضافہ کیا ہے، جس کی ایک تازہ مثال ”پاک بھارت مشترکہ بینڈ“ کا اقدام ہے۔ عالمی دنیا میں برصغیر کی موسیقی کو پیش کرنے کے لیے اس سے بہتر اقدام کوئی نہیں ہوسکتا، جس طرح میکال حسن نے اس خیال کو عملی جامہ پہنایا ہے، جس میں دونوں طرف کے فنکاروں کا اشتراک دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی بہتری کا باعث بھی بنے گا اور امن کو فروغ دے گا۔

میکال حسن بینڈ کے تمام گیت میٹھی اداسی میں ڈوبے ہوئے ہیں، جنہیں سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی روح کے زخموں پر مرہم رکھ رہا ہے۔ عجیب جادو ہے ان گیتوں میں، یہ یادوں کی انگلی تھام کر خیال کی رو میں اتنی دور نکل جاتے ہیں، جہاں سے واپسی ایک کٹھن کام ہے، مگر نہ جانے یہ فنکار اس مشکل کام کو ہر بار کیسے نبھا لیتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں