گزشتہ مارچ کے دوران وسطی ہندوستان کے صنعتی شہر اورنگ آباد میں مسلم کمیونٹی کے ایک گروپ نے ایک مظاہرے کا انعقاد کیا۔ یہ لوگ وزیراعظم نریندرا مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی ریاستی حکومت کے مسلسل مسلم مخالف اقدامات کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔

مظاہرین کے رہنماؤں نے اپنے مطالبات ضلعی کمشنر کے سامنے باضابطہ طور پر پیش کرنے کے لیے طویل مارچ بھی کیا، جنہوں نے وعدہ کیا کہ وہ ان مطالبات کو مہاراشٹر کے ریاستی حکام تک پہنچادیں گے۔

مودی کو وزیراعظم کا منصب سنبھالے ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے، ہندوستان سے آنے والی خبروں کے مطابق ان کی تقریباً پوری توجہ ہندوستانی معیشت کو بیرونی سرمایہ کاری کے لیے پُرکشش بنانے پر مرکوز ہے۔

اس کے لیے وہ بہت سے ہندوستانیوں اور بیرون ملک کے اقتصادی شراکت داروں کو یقین دہانی کروانے کی کوشش کررہے ہیں۔

تاہم یہ بات بھی حقیقت ہے کہ مودی خود بھی بی جے پی کے ترشول بردار عسکریت پسند ونگ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی پیداوار ہیں۔

2002ء میں جب گجرات میں ہندوؤں کے ہجوم نے ایک ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو ہلاک کردیا تھا، تو اس وقت مودی اس ہندوستانی ریاست کے وزیراعلیٰ تھے، اور ان پر تشدد کو روکنے میں ناکامی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ ہندوستان پر ہندو مذہب کے غلبے کا خواب دیکھنے والے آر ایس ایس کے انتہاءپسند کارکن مودی کو اپنا چیمپئن تسلیم کرتے ہیں۔یہی وہ وجہ ہے، جس سے ہندوستانی مسلمانوں کا خوف واضح ہوتا ہے۔

دوسری جانب یہ الزام بھی تواتر کےساتھ عائد کیے جارہے ہیں کہ مرکز میں نریندرا مودی کی قیادت میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اقلیتوں پر پُرتشدد حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

بین الاقوامی مذہبی آزادی کے لیے امریکی کمیشن نے بھی اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں وزیر اعظم نریندرا مودی کی حکومت کے دور میں اقلیتوں پر پُرتشدد حملے بڑھ گئے ہیں۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’2014 کے انتخابات کے بعد، مذہبی اقلیتی فرقوں کو حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے وابستہ رہنماؤں کی جانب سے اشتعال انگیز بیان سننے میں آرہے ہیں جبکہ آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد جیسی ہندو قوم پرست تنظیموں کی جانب سے کئی پُر تشدد حملے اور مذہب کی زبردستی تبدیلی کے واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں۔‘‘

جینوسائڈ (نسل کشی) واچ کی ایک تحقیقی رپورٹ کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان امریکا کے سیاہ فاموں کی مانند ہیں، وہ ہندستانی ثقافت کے ایک پسماندہ رکن ہیں اور انہیں اس حالت تک پہنچانے کے لیے بہت کچھ کیا گیا ہے۔

ہندوستان کے مسلمانوں کی حالتِ زار کا مطالعہ کرنے کے لیے سچر کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، اس نے 2006ء میں اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ’’مسلمانوں کو شکایت ہے کہ ناصرف معاشرے کے بعض حصوں بلکہ سرکاری اداروں اور حکومت کی جانب سے انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔‘‘

سچر کمیٹی کی اسٹڈی کے مطابق مسلمانوں نے بتایا کہ وہ اپنی مرضی سے نہ تو جائیداد خرید سکتے ہیں اور نہ ہی کرائے پر دے سکتے ہیں، اور نہ ہی اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں میں تعلیم دلوا سکتے ہیں۔

سیکیولر ازم کے تحت قانون و انصاف کے معاملات میں ہر ایک ساتھ مساویانہ سلوک کیا جانا چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہوتا اور نہ تو مساویانہ مواقع میسر آتے ہیں اور نہ مساوی نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ ہندو اکثریت کے حامل ہندوستان میں مسلمان ایک پسماندہ اقلیت ہیں۔

اس کی ایک مثال بی بی سی ہندی کی ایک رپورٹ میں پیش کی گئی ہے۔ جس کے مطابق دہلی سے شاملی جانے والے ٹرین حملے میں زخمی ہونے والے 18 برس عمر کے محمد دین اب شاید اپنے پیروں سے کبھی چل نہ سکیں۔ وہ دہلی سے 200 کلومیٹر کے فاصلے پر ریاست اتر پردیش کے شہر کیرانہ کے رہنے والے ہیں۔

اس حملے میں انہیں گولی لگنے کی وجہ سے دین محمد کا نچلا دھڑ مفلوج ہوگیا ہے۔ اب وہ بات کرتے ہیں تو آواز ان کی آواز کپکپاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس کی وجہ شاید ان کے ذہن پر نقش ہوجانے والا خوف ہے۔

انہوں نے بتایا ’’مسلمانوں پر دہلی سے شاملی والی ٹرینوں پر حملے ہو رہے تھے، اور پولیس کسی کو گرفتار نہیں کر رہی تھی، اس رویے کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے ہمارے گاؤں سے بھی کچھ لوگ گئے تھے، میں رک کر یہ معاملہ دیکھنے لگا کہ اچانک مجھے پولیس کی گاڑی سے چلائی گئی گولی لگ گئی، میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ میں لڑكھڑاگيا اور مجھے خون کی الٹیاں ہونے لگی۔‘‘

دین محمد کا خاندان خوفزدہ ہے۔ دین محمد کے بہنوئی محمد جمشید کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دل میں خوف پیدا کرنے کی ان کوششوں کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’’دو سال پہلے مظفرنگر میں جس طرح فساد ہوا تھا، اب پھر اسی طرح کے واقعات ہورہے ہیں، کچھ ہندو اس قدر دہشت پھیلا رہے ہیں کہ مسلمان خاندانوں کو اپنے گاؤں سے نقل مکانی کرنی پڑگئی ہے۔ حکومت نے کچھ نہیں کیا، نہ ہی پولیس نے، ہمارے لیے تو اب صرف خدا کا ہی آسرا باقی رہ گیا ہے۔‘‘

اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کی حکومت ہے اور امن و امان کی ذمہ داری براہ راست طور پر ریاستی حکومت کی ہوتی ہے۔

26 سال کے مزدور، فیضان دہلی سے بذریعہ ٹرین سفر کررہے تھے، جب انہیں لاٹھیوں سے مارا پیٹا گیا اور ان کے پوشیدہ اعضاء پر شدیدچوٹیں آئی تھیں۔ وہ باریش ہیں چنانچہ بطور مسلمان کے ان کی شناخت باآسانی ہو جاتی ہے۔

فیضان اپنے داڑھی کے بال ثبوت کے طور پر پولیس کو بھی دکھا چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا ’’تقریباً دس بارہ ہندو لڑکے ٹرین پر سوار ہوئے، چونکہ میں داڑھی رکھتا ہوں اور ٹوپی پہنتا ہوں تو بطور مسلمان میری شناخت آسانی سے ہو جاتی ہے، وہ مجھے دیکھتے ہی بولے ’یہ رہا ملا، اس کو پکڑلو‘ پھر وہ سب مل کر بے رحمی سے مجھے پیٹنے لگے، میری داڑھی نوچ لی، پیسہ چھین کر لے گئے۔‘‘

ان کے مطابق ان کی شکایت پر اب تک کسی کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے اور اب انہیں باہر نکلنے میں بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں پھر ایسا نہ ہو جائے۔

فیضا ن کےپڑوسیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال میں مسلمانوں پر ٹرینوں، بسوں اور عوامی مقامات پر حملوں کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔کوئی اگر مسلمان کمیونٹی کی بات سنے تو ان کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔

وہ کہتے ہیں’’مودی حکومت کے دور میں مسلمانوں کے ساتھ سب سے برا سلوک ہوا ہے۔ ماحول اتنا برا کبھی نہیں تھا۔ ہم اس پارٹی کو کبھی ووٹ نہیں دیں گے۔ جب مرکزی حکومت کے وزیر ہی مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیان دیں گے تو لامحالہ ہم مسلمانوں یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ ہمارے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ہم بھی اس ملک میں پیدا ہوئے ہیں، باقی شہریوں کی طرح ہمیں بھی تحفظ کا احساس ہونا چاہیے۔ لیکن مودی حکومت کے دور میں مقامی ہندو تنظیموں کو بہت طاقت حاصل ہوئی ہے اور اس کے بعد سے چیزیں بہت بدل گئیں ہیں۔‘‘

اگرچہ بے جی پی میں شامل مختار عباس نقوی ہر بات کا جواز پیش کردیتے ہیں اور ان واقعات کو سرپھرے اور جنونی لوگوں کا کارنامہ بتا کر بی جے پی کو استثنٰی دینے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن گزشتہ سال کے دوران حکومتی وزراء کی جانب سے ’’ہر ہندو عورت کو چار بچے کرنے چاہییں، تاکہ ہندوؤں کا غلبہ برقرار رہے۔‘‘ اور ’’دارالحکومت کو رام زادے چلائیں گے یا حرامزادے؟‘‘ جیسے بیانات کی صفائی پیش کرنے کے لیے ان کے پاس الفاظ موجود نہیں تھے۔

ہندوستانی ریاست مہاراشٹرا حکومت کی جانب سے 2008ء میں مسلمانوں کی حالتِ زار کا جائزہ لینے کے لیے تشکیل دی گئی رحمان کمیٹی نے اپنی رپورٹ 2013ء میں پیش کی تھی، جس کے مطابق 60 فیصد مسلمان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں اور صرف دو فیصد کالج سے گریجویٹ ہیں۔

جینوسائڈ واچ کی رپورٹ کے مطابق نریندرا مودی کا اقتدار سنبھالنا سیکیولرازم کی قابلِ احترام اقدار کے بالکل برعکس ہے۔ 2002ء کے فسادات میں ان کا کردار انتہائی متنازع تھا۔مودی کی فتح طویل عرصے سے خوف کی حالت میں زندگی بسر کرنے والے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔

تبصرے (4) بند ہیں

armaan Jun 30, 2015 02:56pm
india is not a democracy it is hindu republic with highest rates of human rights violations.
MUHAMMAD AYUB KHAN Jul 01, 2015 02:03pm
yeh sab
MUHAMMAD AYUB KHAN Jul 01, 2015 02:06pm
Pakistan sirf is liyey bana tha taki yeh sab kuch na ho jo ki hindustan meyN ab bhi ho raha hey
MUHAMMAD AYUB KHAN Jul 01, 2015 02:06pm
mazeed isi kaa naam two nations theory hey