کراچی: بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آگ لگنے کے واقعے کی دوبارہ تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ منظر عام پر آگئی جس میں کہا گیا ہے کہ واقعہ حادثاتی نہیں بلکہ سوچی سمجھی دہشت گردی اور تخریب کاری کا منصوبہ تھا۔

واضح رہے کہ 2012 میں کراچی کے بلدیہ ٹاؤن کی گارمنٹس فیکٹری میں لگنے والی خوفناک آگ نے 259 ملازمین کی جان لے لی تھی، جبکہ 50 ملازمین زخمی بھی ہوئے تھے۔

ڈان کو حاصل ہونے والی جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق پنجاب فارنزک لیب نے فیکٹری میں لگنے والی آگ آتش گیر مادہ سے لگنے کی تصدیق کردی ہے، جبکہ دیگر شواہد اور ماہرین کی رائے کے بعد ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ فیکٹری میں آگ حادثاتی طور پر نہیں لگی، بلکہ دہشت گردی کی منظم منصوبہ بندی کے تحت لگائی گئی۔

رپورٹ میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رحمٰن بھولا اور حماد صدیقی کا نام لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دونوں مبینہ دہشت گردوں نے 20 کروڑ روپے بھتہ اور فیکٹری کے منافع میں حصہ نہ دینے پر اس منظم دہشت گردی کا منصوبہ بنایا۔

یہ بھی پڑھیں : سانحہ بلدیہ ٹاﺅن کی نئی تحقیقات شروع

جے آئی ٹی کے اراکین کی رائے میں پولیس کی جانب سے واقعے کی تحقیقات پیشہ وارانہ انداز میں نہیں کی گئی اور حقائق کو چھپایا گیا، جبکہ تحقیقات کے آغاز سے اس طرح تفتیش کی گئی جس سے ملزمان کو فائدہ پہنچا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واقعے کی درج کی جانے والی ایف آئی آر میں بیرونی اور اندرونی دباؤ کے باعث اسے حادثہ قرار دیا گیا اور بھتے کے عنصر کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔

تحقیقات کے آغاز میں جے آئی ٹی کے اراکین یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ واقعے کی ایف آئی آر اور پہلی تحقیقاتی رپورٹ میں کہیں بھتے کے عنصر کا ذکر نہیں کیا گیا، جس کے بعد اراکین کا ماننا تھا کہ یہی وہ عنصر تھا جس کی وجہ سے اس سوچے سمجھے دہشت گردی کے منصوبے کو انجام دیا گیا۔

رپورٹ میں واقعے کی پرانی ایف آئی آر واپس لے کر انسداد دہشت گردی ایکٹ اور پاکستان پینل کوڈ کے تحت نیا مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں : رینجرز رپورٹ: سانحہ بلدیہ ٹاﺅن میں ایم کیو ایم ملوث قرار

نئی ایف آئی آر میں واقعے کے مبینہ ملزم رحمٰن بھولا، حماد صدیقی، زبیر عرف چَریا اور اس کے چار ساتھیوں عمر حسن قادری، ڈاکٹر عبدالستار، علی حسن قادری اور مسمات اقبال ادیب خانم کا نام شامل کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ بیرون ملک فرار ملزمان کو گرفتار کرکے ان کے پاسپورٹ منسوخ کیے جائیں اور ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالے جائیں۔

رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ واقعے کے بعد فیکٹری مالکان نے دباؤ بڑھنے پر معاملہ طے کرنے کا فیصلہ کیا اور واقعے میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کو معاوضے کی ادائیگی کے نام پر کروڑوں روپے کا بھتہ دیا گیا جس سے حیدر آباد کے لطیف ٹاؤن میں بنگلہ خریدا گیا۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ بھتے کی رقم سے حیدرآباد میں خریدا گیا بنگلہ فیکٹری مالکان کو واپس دیا جائے۔

یہ خبر 23 فروری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں