برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں وزیراعظم کے بیٹے حسن نواز کا 1999 کا ایک انٹرویو رواں ہفتے سوشل میڈیا پر سامنے آیا ہے جو بظاہر لندن میں شریف خاندان کی زیرملکیت جائیداد اور رواں ماہ کے شروع میں پاناما لیکس میں ہونے والے انکشافات کے درمیان ایک ممکنہ تعلق قائم کرتا ہے۔

اس انٹرویو میں حسن نواز میزبان ٹم سبسٹین کے سوالات کے سامنے گھبرائے ہوئے تھے اور لندن کے پوش علاقے مے فیئر میں ایک فلیٹ کی ملکیت کے حوالے سے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے گڑبڑاہٹ کا شکار نظر آئے۔

حسن نواز اس انٹرویو، جو 12 اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف کے ہاتھوں میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے کچھ دنوں بعد دیا گیا، کے دوران خاص طور پر اس وقت زیادہ پریشان دکھائی دیے جب میزبان نے ان سے مے فیئر کے اس فلیٹ کی ملکیت کے بارے میں پوچھا جہاں وہ مقیم تھے۔

حسن نواز کا بی بی سی کو 1999 کا انٹرویو

حسن نواز نے کہا " میں کرایہ دے کر وہاں رہ رہا ہوں جو سہ ماہی بنیادوں پر پاکستان سے ادا کیا جاتا ہے، میرا اپنا کوئی ذریعہ آمدن نہیں، میں دیگر طالبعلموں کی طرح ہوں جو اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہیں، یہ ضروری نہیں کہ مجھے حقائق اور یہ معلوم ہو کہ یہ فلیٹ کس کی ملکیت ہے، کون اس کا کرایہ ادا کرتا ہے اور کون میرے اخراجات ادا کرتا ہے"۔

ان کے بقول " میں اس سوال کا جواب دینے کے لیے درست شخص نہیں"۔

جب ٹم سبسٹین نے یہ امکان پیش کیا کہ یہ فلیٹ " بظاہر دو آف شور کمپنیوں نیلسن انٹرپرائز لمیٹڈ اور نیسکول لمیٹڈ کی ملکیت ہے، یہ دونوں کمپنیاں برٹش ورجین آئی لینڈز میں رجسٹرڈ اور سوئٹزرلینڈ میں ایک کمپنی چلارہی ہیں" تو حسن نواز نے یہ جواب دیا " میں اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا، میں اس سے بالکل لاعلم ہوں تو میں کیا کہوں؟"

وزیراعظم کے بیٹے نے فلیٹ کی ملکیت کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ ان کا کرایہ پاکستان میں ان کے خاندان کے کاروبار کے فنڈز سے ادا کیا جارہا ہے۔

آئی سی آئی جے کا شریف خاندان کی آف شور ملکیت کا ڈیٹا
آئی سی آئی جے کا شریف خاندان کی آف شور ملکیت کا ڈیٹا

جب ان سے ایک آف شور بینک اکاﺅنٹ کے حوالے سے موجود افواہوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا " میں صرف اپنی جانب سے بات کرسکتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ میرا کسی بھی ملک، کسی بھی بینک میں آف شور اکاﺅنٹس نہیں"۔

تاہم انہوں نے مزید اضافہ کیا کہ وہ ایک اسٹوڈنٹ اکاﺅنٹ سنبھال رہے ہیں جسے تعلیمی فیس اور روزمرہ کے اخراجات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

گزشتہ دنوں انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس کی جانب سے جاری ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ مریم نواز نیلسن اینڈ نیسکول سے مستفید ہورہی ہیں، یہ کمپنیاں جنھیں مینیروا ٹرسٹ اینڈ کارپوریٹ سروسز لمیٹڈ نے رجسٹرڈ کیا، مبینہ طور پر مے فیئر کے اس فلیٹ کی 'مالک' ہیں جہاں حسن نواز 1999 میں 'کرائے' پر رہتے تھے۔

آئی سی آئی جے کی ویب سائٹ پر دستیاب دستاویزات کے مطابق وزیراعظم کے بچے مریم، حسن اور حسین " متعدد کمپنیوں کے مالک یا ان کی ٹرانزیکشن کا اختیار رکھتے ہیں"۔

اس پرانے انٹرویو پر سب سے زیادہ ٹوئٹر پر ردعمل سامنے آیا اور یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ شریف خاندان غیر اعلان شدہ یا آف شور اثاثوں پر اپنی پوزیشن واضح کرے۔

پاناما لیکس کے بعد وزیراعظم کے دوسرے بیٹے حسین نواز نے تسلیم کیا تھا کہ ان کا خاندان آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کی مالک ہے"۔

پاناما دستاویزات سامنے آنے کے بعد ایک ٹی وی چینیل سے بات کرتے ہوئے حسین نواز نے کہا " وہ اپارٹمنٹس ہمارے ہیں اور وہ آف شور کمپنیاں بھی ہماری ہیں"۔

ایک دوسرے انٹرویو میں حسین نواز نے کہا " لندن میں پارک لین اپارٹمنٹس ہمارے ہیں، دو آف شور کمپنیاں نیلسن اینڈ نیسکول، ان فلیٹس کی ملکیت رکھتی ہیں اور میں ان کمپنیوں سے مستفید ہونے والا مالک ہوں، جو ایک ٹرسٹ کے تحت کام کرتی ہیں جو میری بہن مریم نواز شریف چلارہی ہیں"۔

انہوں نے تین آف شور کمپنیوں کی ملکیت کا انکشاف کیا تاہم ان کا دعویٰ تھا کہ ہم نے کبھی بھی ' کالا دھن' دنیا کے کسی حصے میں نہیں لگایا۔

حسین نواز کا ایکسپریس نیوز کو دیئے جانے والا انٹرویو

پاناما دستاویزات میں کیا انکشافات ہوئے

پاناما دستیاویزات کا ڈیٹا آئی سی آئی جے کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے، جو ان سو میڈیا اداروں اور تین سو صحافیوں میں سے ایک ہے جو اکھٹے ملکر اس ڈیٹا کی کھوج کررہے ہیں اور وہاں سے ہی وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کی آف شور کمپنیوں کی ملکیت کا انکشاف ہوا۔

مریم نواز شریف کو " برٹش ورجین آئی لینڈز سے تعلق رکھنے والی نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ اور نیسکول لمیٹڈ کا مالک ظاہر کیا گیا"۔

آئی سی آئی جے کے جاری کردہ ایک دستاویز میں نیلسن انٹرپرائز کا پتہ سرور پیلس جدہ، سعودی عرب درج ہے۔ جون 2012 کی تاریخ والے اس دستاویز میں مریم نواز کو 'مستفید مالک' قرار دیا گیا ہے۔

آئی سی آئی جے کے مطابق " حسین نواز اور مریم نواز نے جون 2007 میں ایک دستاویز پر دستخط کیے تھے جو کہ ڈچز بینک جنیوا کی جانب سے نیسکول، نیلسن اور ایک اور کمپنی کو دیئے جانے والے 13.8 ملین ڈالرز کے قرضے کی ٹرانزیکشن کا حصہ تھی جس کے لیے لندن کی جائیداد کی ضمانت دی گئی"۔

جولائی 2014 میں دونوں کمپنیاں ایک اور ایجنٹ کو منتقل کردی گئیں۔

حسن نواز شریف کے بارے میں دستاویزات میں یہ بتایا گیا " فروری 2007 میں برٹش ورجین آئی لینڈز میں تشکیل دی جانے والی ہنگون پراپرٹی ہولڈنگ کے واحد ڈائریکٹر، جسے اگست 2007 میں لائبریا سے تعلق رکھنے والی کمپنی کیسکون ہولڈنگ اسٹیبلشمنٹس لمیٹڈ نے 11.2 ملین ڈالرز کے عوض خرید لیا"۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Kamran Ahmed Wasti Apr 16, 2016 10:11am
Everybody is lier and everybody is thief.
Khan Apr 16, 2016 07:10pm
واقعی شریف؟